جہاں اور بھی ہیں
افروز سیدہ
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے
سازو آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے
زہر بھی ہے آبِ حیات ، لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے زندگی دل دار بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچ رہا تھا یہ عشق و محبت کی حکایتیں حسن و شباب کی لطافتیں ، بے وفا دلبروں کی چاہتیں ، یا ردوستوں کی پر کیف صحبتیں اور ماں باپ کی ازلی شفقتیں سب کتابی باتیں ہیں وہ کتا بی صداقتیں کس کام کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو طوفان تھم چکا تھا اس سجدہ گاہ کے نشان مٹ چکے تھے جس کے لئے میری جبینِ نیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن دنوں موسم کی میس بھیگ رہی تھیں ہرے بھرے کھیتوں کی بالیاں جوان ہو رہی تھی۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل میں عجیب سی گد گدی پیدا کر رہی تھیں۔ اسکول کا راستہ کاٹے نہیں کٹتا تھا کیونکہ اب شاداں ہمارے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ پتہ نہیں وہ کیوں مجھے اچھی لگتی تھی مجھ سے ایک دو جماعت آگے تھی۔ شاید عمر میں بھی بڑی تھی دسویں جماعت فیل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسکول بھیجنا بند کر دیا تھا۔ ہمارے امتحان قریب تھے اور پڑھائی میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔ کتابوں سے مجھے نفرت سی ہو گئی تھی اکثر اسکول سے غائب رہتا بس کھا نا اور کھیلنا دو ہی مشغلے تھے۔ گھنٹوں کھیتوں میں گھوم گھام کر گھر چلا جاتا کبھی میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں میں شامل ہو جاتا۔ اس دن شام کا دھند لکا پھیلنے لگا تھا گاؤں کے کچے گھروں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ شاداں کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے روز کی طرح میری نظر آج بھی اسی طرف تھی دروازہ بند تھا چھوٹی سی کھڑ کی میں ایک چہرہ نظر آیا تب ہی دروازہ کھلا شام کے سرمئی اندھیرے میں شاداں کا اجلا چہرہ نظر آ گیا اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے پاس بلا یا۔ جب میں بھا گتا ہوا اس کے قریب پہنچا اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لیا دروازہ بند کر کے مجھے تخت پر بٹھا دیا جہاں ایک مدھم ساچراغ روشن تھا۔ میں نے پو چھا:
’’کیا بات ہے شادو ؟‘‘’’ناصر میں نے سنا ہے تم اسکول برابر نہیں جا رہے ہو نہ پڑھائی میں دلچسپی لیتے ہو کیا بات ہے ؟‘‘
’’ہاں شادو جب سے تم نے اسکول آنا بند کیا ہے تب سے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اسکول میں دل نہیں لگتا‘‘
’’اچھا سنو تم روزانہ میرے گھر آ جا یا کرنا میں تمہیں پڑھا دیا کرونگی ٹھیک ہے ؟ آؤ گے نا؟‘‘
’’شادو تم نے یہ بہت اچھی بات کہہ دی اب میں ہر روز آیا کروں گا ‘‘میں خوشی خوشی گھر کی طرف بھا گا۔
میرے ماں باپ پانچ سال پہلے میرے چھوٹے بہن بھائی کو لیکر سعودی عرب چلے گئے تھے میں اپنی دادی اور پھو پی کے ساتھ رہتا تھا ماں باپ کے پیار کے لئے تر ستا تڑ پتا جی رہا تھا۔ جس دن کسی سے پیار کے دو بول سن لیتا خوشی سے دیوانہ ہو جاتا میرا وہ دن بہت اچھا گزرتا۔ مجھے یاد ہے ماں مجھ سے گھر کا سارا کام کرواتی چھوٹے بہن بھائی کی خدمت کرواتی اور مجھے ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔ کبھی کوئی غلطی ہو جاتی یا کسی کام میں دیر ہو جاتی تو وہ مجھے بری طرح مارتی اور کوستی کاٹتی تھی سب بچوں کی مائیں ایسی تو نہیں ہوتیں پھر میری ماں ایسی کیوں تھی یہ سوال مجھے ہمیشہ کچوکے لگاتا اور میرا دل ہمیشہ اداس رہتا تھا۔
اب میں اسکول پابندی کے ساتھ جانے لگا تھا شاداں مجھ سے بہت خوش تھی اداسیوں کا بوجھ میرے دل سے ہٹ رہا تھا۔ ایک دن اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا میں پلکیں جھکاتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا اس نے کہا ’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟
میں نے نظریں جھکا لیں میرا دل بری طرح دھڑ ک رہا تھا۔ ’’اب تم جا ؤ ناصر کلآؤ گے نا؟ ‘‘شاداں کی آواز کپکپا رہی تھی اور میرے اندر کہیں گرم گرم لوہا پگھل رہا تھا میں باہر نکل گیا میری سا نسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں گھر جا کر ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھویا اور کتابیں لے کر بیٹھ گیا کیونکہ دوسرے دن پھر شاداں کے پاس جانا تھا پرانا سبق سنانا تھا نیا سبق لینا تھا۔ اس رات مجھے نیند نہیں آ رہی تھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی نے مجھے خزانے کا راز بتا دیا ہے دادی ماں نے کہانیوں میں خزانوں کا حال سنا یا تھا کہ کس طرح شہزادے جن اور دیوؤں سے لڑ کر خزانہ حاصل کر لیتے ہیں آج میں بھی اپنے آپ کو ایک شہزادہ محسوس کر رہا تھا دوسرے دن مجھے شاداں کے گھر جانے کی جلدی تھی بے جھجک و بے دھڑ ک چلا جا رہا تھا جیسے خزانہ میرے انتظار میں ہو۔ آج اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا ’’ناصر تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو کیا میں بھی تمہیں اچھی لگتی ہوں ؟ ’’تم جلدی سے بڑے ہو جاؤ خوب پڑھ لکھ کر اچھی سی نوکری کرنا پھر مجھے یہاں سے لے جانا میں تمہاری دلہن بن کر آؤں گی میری سوتیلی ماں ہے نا وہ مجھے بہت مارتی اور خوب کام کراتی ہے اسی نے بابا سے کہہ کر میرا اسکول جانا بند کرا دیا ہے بولو تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ گے نا ؟‘‘میں نے ایک انجانی سی خوشی کے تحت حامی بھر لی۔ میرے امتحان ختم ہو گئے میں اچھے نشانات سے پاس ہو گیا۔ اب شادو کے پاس کس طرح جاؤں ؟ وہ مجھے دسویں جماعت کی کتا بیں نہیں پڑھا سکتی تھی اور مجھے اس کے ہاں گئے بنا قرار نہ تھا کاش میں امتحان میں پاس ہی نہ ہوا ہوتا۔ یہ کیسا خوش گوار سا آزار لگ گیا تھا۔ شادو کے خیال سے میرے بدن میں گد گد سی ہونے لگتی بازوؤں میں عجیب سی قوت کا احساس ہوتا اور رگوں میں گرم گرم خون اچھلتا محسوس ہوتا سینے میں جذبات کا سیلا ب سا امڈ نے لگتا شاید ایسے ہی سیلا ب زندگی کے دھاروں کا رخ بدل دیتے ہیں۔ مجھے پڑھائی پھر سے بری لگ رہی تھی میں سستو خاموش بیٹھا رہتا میری اداسی کا سبب کوئی نہیں جانتا تھا میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ سوائے دادی کے میرا کوئی غم خوار نہ تھا میں ان سے کہتا بھی کیا۔ ماں باپ نے تو مجھے بھلا ہی دیا تھا۔ ان دنوں ہمارے گاؤں کے تھا نے دار کے ہاں ٹی وی آ گیا اب میرا وقت اچھا گزرنے لگا شادو بھی اکثر وہاں آ جاتی تھی موقع پا کر تھا نے دار کی موٹی بیوی مجھے اپنے پاؤں دبانے کہتی میں ٹی وی دیکھنے کے شوق میں اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ وہ بھی مجھے شادوکی طرح لپٹا نے اور پیار کرنے لگی لیکن وہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ میں ٹی وی کی خاطر چپ رہتا۔ کاش میرے والدین بھی باہر سے ٹی وی اور ڈھیر سا رے کپڑے و کھلونے مجھے لا کر دیتے جیسے تھا نے دار کے لڑکے نے لائے تھے میرے دل سے درد کی لہریں اٹھتیں اور میں گھنٹوں گم صم بیٹھا رہتا۔ اچانک گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ ہائی اسکول کرانے کے لئے مجھے ماموں کے ہاں شہر بھیج دیا جائے۔ شہر کی میں نے بہت تعریف سنی تھی وہاں جانے کے خیال سے خوشی تو ہوئی لیکن شادو کی جدائی کے خیال سے وحشت سی ہو رہی تھی میں نے اسے بتا یا کہ شاید مجھے بہت جلد شہر بھیج دیا جائے گا وہ بھی اداس ہو گئی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں وہاں جا کر دل لگا کر پڑھائی کروں اچھی نوکری کروں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں میں نے بھی وعدہ لیا کہ وہ مجھے خط لکھا کرے گی۔ اس کی آنکھوں سے موتی کی لڑیاں ٹوٹ رہی تھیں وہ مجھ سے لپٹ گئی شاید بچھڑ تے وقت اسی طرح ملا کرتے ہیں پھر میرے چہرہ کو اپنے ہاتھوں کے کٹوروں میں لے کر سرخ سرخ آنکھوں سے گھورنے لگی جیسے اس چہرے کو اپنی آنکھوں میں چھپا لینا چاہتی ہو میں نے اس کے آنسو پو نچھ دئے اس نے سسکتے ہوئے کہا ’’میں تمہارا انتظار کروں گی ناصر تم اپنی شادو کو بھول نہ جانا ‘‘۔ میرے دل میں پھر درد کی لہر اٹھی میری ماں تو مجھے چھوڑ کر جاتے ہوئے نہ روئی تھی نہ ہی سینے سے لگا یا تھا جاتے جاتے بھی مجھ پر غصہ کیا تھا۔ وہ میری حقیقی ماں تھی پھر۔۔۔ میں شہر آ گیا۔ مجھے لینے کے لئے ماموں اسٹیشن آئے تھے میں ان کی کار میں بیٹھا شہر کی سیر کر رہا تھا شہر جہاں شور ہی شور تھا مختلف آوازیں تھیں آسمان کو چھوتی ہوئی اونچی اونچی عمارتیں ، بڑے بڑے دوا خانے ، عدالتیں ، ہو ٹلیں ،سینماتھیٹر ز بے حساب اسکول اور کالج ، دارالمطا لعے ، تفریح گا ہیں ، گزرے زمانے کے کھنڈ رات گز شتہ تہذیب کی مٹی مٹی سی نشانیاں ، کشادہ سٹرکیں رنگین کاروں کے رواں دواں قافلے اور آدمیوں کی بھیڑا س جم غفیر میں ہر قسم کا آدمی ہو گا آفیسر، ڈاکٹر ، ٹیچر ، نوکر چور لٹیرے ، ڈاکو ، خونی ، ظالم اور مظلوم۔ میں سوچتا رہا یہ سب کے سب کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے ختم ہو گئی تھی۔ گاڑی جب گھر کے گیٹ پر رکی تب میں خیالات کے دائروں سے باہر نکلا تو یہاں بھی حیران ہوا۔ گھر کیا تھا عجائب گھر تھا جس کا ذکر اکثر کتابوں میں پڑھا تھا کہ وہاں بہت ہی نادر و نایاب چیزیں ہوتی ہیں شاید وہ ایسا ہی ہوتا ہو گا گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی پھول پودوں سے آراستہ چمن زار تھا چھوٹے جھا ڑوں کو کاٹ کر ہاتھی گھوڑے اور اونٹ بنائے گئے تھے جو تھوڑی تھوڑی دور پر ایسے کھڑے تھے جیسے آنے والوں کا استقبال کر رہے ہوں۔ رنگا رنگ پھولوں کے تختے ، ایک طرف پنجرے میں رنگ برنگی چڑ یاں دوسری طرف موٹی زنجیروں سے بندھے ہوئے جھولے تھے اندر پہنچا تو خو بصورت قالین ، قیمتی فرنیچر ، دیواروں پر عجیب سی تصویریں ، بڑے بڑے گلدان اور ایک کونے میں کانچ کا بڑا سا ڈبہ پانی سے بھرا ہوا تھا جس میں چھو ٹی بڑی رنگین مچھلیاں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ دوڑ رہی تھی۔ میں حیران کھڑا ہر چیز کو غور سے دیکھتا رہا۔ گاؤں کے کچے پکے مکانوں اور کھیت کھلیانوں سے نکل کر میں ایک نئی دنیا میں آ گیا تھا۔ مجھے جو کمرہ دیا گیا تھا اس کی سج دھج اور ہی تھی۔ کھڑ کی سے باہر دیکھا تو اونچی اونچی روشن عمارتوں کے سلسلے حد نظر تک پھیلے ہوئے نظر آئے جن کے اندر حرکت کرتے ہوئے سائے عجیب لگتے تھے۔ سامنے والے دو منزلہ مکان میں بھی کئی دروازے اور کھڑ کیاں تھیں۔ ایک کھڑ کی میں سانولی سلونی موٹی سی لڑکی میری طرف دیکھ کرمسکراتی نظر آئی مجھے تھانے دار کی بیوی یاد آ گئی۔ پتہ نہیں وہ لڑکی کیوں مسکرا رہی تھی میں جھینپ سا گیا اور آتی جاتی ہوئی کاروں کو دیکھنے لگا میں سوچ رہا تھا کیا شہر کی لڑکیاں ایسی بے باک ہوتی ہیں جوکسی اجنبی کو دیکھ کر بے سبب ہی مسکراتی ہیں۔ اب یہ ہونے لگا کہ میرے اسکول جانے اور آنے کی اوقات میں وہ کھڑ کی میں کھڑی مسکراتی ہاتھ ہلاتی نظر آتی اور میں بالکل انجان ہو جاتا۔ گھر میں ممانی کی بیوہ بہن مجھ پر مہر بان تھی میری ٹیچر بنی ہوئی تھی اس نے مسکر اتی ہاتھ ہلاتی سانولی کو دیکھ لیا شام گھر لوٹنے پر بڑی بر ہم ہوئی ماموں سے شکایت کی دھمکی بھی دے دی میں سہم گیا اور اپنی صفائی پیش کر دی ایک دن باتوں باتوں میں ممانی نے بتایا کہ شہر میں لڑکیوں کی شادی بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے وہ نسرین کی دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن منا سب لڑکا نہیں مل رہا ہے اگر ملتا بھی ہے تو اس کے لوگوں کو لڑکی پسند نہیں آتی یہی حال سا منے والی لڑکی کا بھی ہے موٹی ہونے اور رنگ کم ہونے کی وجہ سے کسی نے بھی پسند نہیں کیا اس کا بھائی لیڈر ہے اسے بہن کی فکر نہیں ہے خوداس نے کسی گاؤں کی لڑکی سے دوسری شادی کی ہے اسے گاؤں میں ہی رکھا ہے کبھی کبھی وہ یہاں بھی آتی ہے مجھے اس ماحول میں گھٹن سی ہونے لگی میں نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور باہر نکال گیا۔
محلے کے دوچار لڑکے میرے دوست بن گئے تھے کچھ ایسے بھی تھے جو مجھے گاؤں والا سمجھ کرستا یا کرتے میرا مذاق اڑا تے لیکن رفتہ رفتہ سب گھل مل گئے تھے۔ رشید ، منیر اور جبار میرے اچھے دوست تھے تینوں بڑے باپ کے بیٹے تھے شام ڈھلے جب ہم ایک جا ہوتے بڑی ہڑ بو نگ رہتی۔ وہ تینوں مجھے گھیٹ لے جاتے ان کا رخ کسی ویڈ یو گیمس سنٹر یا کسی پارک کی طرف ہوتا چاٹ گھر سے کچھ کھانے کی چیزیں اور سگریٹ اپنے ساتھ ضرور لے جاتے مجھے کھانے پینے میں کوئی عار نہیں تھی لیکن سگریٹ اچھا نہیں لگتا تھا ‘‘منیر کہتا ’’دیکھو تو کتنا مزا آتا ہے میں امتحان کے قریب بہت سگریٹ پیتا ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امتحان کی ہیبت اور پاس یا فیل ہو نے کی فکر دھواں بن کر ہواؤں میں کہیں تحلیل ہو رہی ہے ‘‘میں جواب دیتا ’’امتحان کی فکر ہی تو ہمیں پاس کراتی ہے یہ ہما را میٹر ک کا سال ہے اسکول کی ان گلیوں سے نکل کر کالج کی شاہراہ پر دوڑ نا ہے فیل ہو نے کی صورت میں ان ہی گلیوں میں سٹر نا گلنا پڑے گا ‘‘جبار جھوم کر کہتا ’’چھوڑو بھی یار شاید تمہیں نہیں معلوم کہ میں فیل بھی ہو جاؤں تو میرے پاپا مجھے پاس کروا لیں گے ‘‘منیر اور رشید کہتے ’’ہمارے پاپا کی طرف سے ہمیں بھی کوئی فکر نہیں ہے ‘‘
میں حیران حیران سا ان کی طرف دیکھتا رہ جاتا اور وہ فلک شگاف قہقہہ مار کر کہتے ’’چل تجھے بھی ہم پاس کرا دیں گے فکر نہ کر یار لے جلدی سے ایک سگریٹ پی لے ‘‘۔ میں میٹرک پاس ہو گیا ماموں نے مجھے کالج میں داخل کرا دیا۔ اس دوران شاداں کا ایک بھی خط نہیں آیا اس نے میرے خطوں کے جواب تک نہیں دئے میں گاؤں جا کر اسے اور دادی کو خوش خبری دینا چاہتا تھا شاداں میرے لئے ایک تسکین کیف انگیز ہی نہیں ایک مہمیز بھی تھی میری پہلی استاد تھی جس نے مجھے نئے نئے سبق پڑھائے تھے۔ میں ارادے کے باوجود گاؤں نہ جا سکا۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں کالج شروع ہو گئے۔ میں کالج کی کتا بیں خریدنے کے لئے جب دوکانوں پر جاتا مجھے وہ چہرے نظر آتے جن پر علم کا نور پھیلا ہوا ہوتا اور سوچنے لگتا علم کتنی عظیم چیز ہے جو آدمی کوانسان بناتی ہے۔ کالج کی رنگین فضاؤں میں بکھرے نقرئی قہقہے میٹھی میٹھی سرگوشیاں ، شوخ و چنچل چہلیں میرے اندر نئے احسا سات جگا رہی تھیں میری رگوں میں دھیمی دھیمی آگ سلگنے لگی دل سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا جوانی کی شروعات بھی ایک دلفریب موسم ہوتی ہے اس موسم کے پھولوں کی مہک یار دوستوں کی صحبت اور آزادی۔ میرے تصور کے صنم خانوں میں ایک نئی دنیا آباد ہو رہی تھی شہر کی تہذیب کا مطلب سمجھ میں آ رہا تھا کالج کی سیاست کے راز آشکار ہو رہے تھے آیا اور چوکیدار سے لے کراسٹوڈنٹ اور لکچرار تک سیاست داں تھے جواں عمری کی ابھرتی مچلتی صلاحیتوں نے ہمیں بھی سیاست سکھا دی تھی ان ہی صلاحیتوں کے سیلاب میں بہتے ہوئے ہم بہت دور نکل گئے ستاروں سے آگے جہاں بسا نے کے خواب دیکھنے لگے۔ میری کلاس میٹ ثناء درانی مجھ پر بہت مہربان تھی ایک دن اچانک ثنا ء نے کہا ’’ناصر ہمیں انٹر کے بعد ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا ہے میرے پاپا نے ہمارے داخلہ کے انتظامات کر لئے ہیں اس کے بعد وہ ہمیں امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں اب تم اپنے ماضی کو بھول جاؤ اور مستقبل کی فکر کرو‘‘ شاید ہر انسان کے دل میں کوئی نہ کوئی محرومی ایک خلش بن کر اس کے دل میں جاگزیں رہتی ہے میں والدین کی شفقت اور شاداں کی محبت سے مایوس ،دل کی ہر خلش کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا رہا تھا۔ مد ہوشی کا عالم تھا جاگتی آنکھوں کے خواب تھے ثنا ء میرے ساتھ تھی اور میں امریکہ کی آزاد ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ وفا اور جفا کے اصولوں کو مٹاتا ہوا ایک احساس میرے اندر جاگ رہا تھا!نہیں نہیں میں شاداں سے بے وفائی نہیں کر سکتا وہ بہت معصوم اور بھولی ہے وہ میری منتظر ہے۔ مجھے امتحان کی فکر بے چین کئے دے رہی تھی ہاتھ میں کتا ب لئے میں ٹہل رہا تھا۔ لیڈر کے مکان میں شاید کوئی تقریب تھی مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا اچانک میری نظر ایک کار پر پڑی جس سے ایک عورت زرق برق کپڑوں میں ملبوس زیورات سے لدی اتر رہی تھی یہ۔۔۔ یہ کون ہے ؟ کون ہے یہ ؟کیا یہ شاداں ہے ؟ میں ذرا آگے بڑھ کر دیکھنے لگا ممانی اور نسرین میرے پیچھے کھڑی ہنس رہی تھیں ممانی نے کہا ’’یہی لیڈر کی بیوی ہے نا دوسری بیوی شہر کی میم سے دل بھر گیا تو گاؤں کی تتلی پکڑ لا یا ہے ‘‘مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر طرف طوفانی جھکڑ چل رہے ہوں چاروں طرف خس و خاشاک بکھر رہا ہے جس میں شاداں کا وجود ایک حقیر تنکے کی ما نند اڑ رہا ہے اور وہ تنکا دھند لے غبار میں غائب ہو گیا۔ میں سوچ رہا تھا یہ عشق و محبت کی حکایتیں ، حسن و شباب کی لطافتیں ، بے وفا دلبروں کی چاہتیں ، یار دوستوں کی صحبتیں اور ماں باپ کی شفقتیں سب کتا بی باتیں ہیں کیوں نہ میں ان کتابوں کا ایک مینار کھڑا کروں اور اس میں آگ لگا دوں کیونکہ کتابیں تو صداقتوں کا سمندر ہوتی ہیں لیکن وہ کتابی صداقتیں کس کام کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو!۔ طوفان تھم چکا تھا اس سجدہ گاہ کے نشان مٹ چکے تھے جس کے لئے میری جبینِ نیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے اس حا لت میں جانے یوں ہی کب تک کھڑا رہا جیسے ایک موسم بدل گیا تھا اور مطلع صاف ہو گیا تھا۔ ستاروں کے بیچ ثناء کا مسکراتا چہرہ مجھے جہانِ نو کی طرف آنے کی دعوت دے رہا تھا۔
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے
سازوآہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے
زہر بھی ہے آب حیات لب ورخساربھی ہے
زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے
*****