کتھا کنج کا راج پاٹ
محمد حمید شاہد
سمندر کی عمیق لہروں کے پیچھے سے ایڑیاں اچکا کر جیسے ہی سورج نے کتھاکنج گاؤں میں جھانکا پرکاش سُکھ سوریہ ونشی نے پہلی کرن کے پہنچنے سے قبل کشتی کا لنگر کھول دیا۔ اکادشی کی صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ سمندر کا سفر بہترین شگون سمجھا جاتا ہے لیکن شاذونادر ہی یہ لمحہ کسی کو نصیب ہوتا۔اس لئے کہ اکا دشی پورنیما کی رات سال میں ایک بار آتی اس رات یہ لوگ سورج دیوتا کی بیٹی چندا رانی کی عبادت کرتے رات بھر ناچ رنگ کی محفلیں سجتیں اور آخری پہر تھک ہار کر اپنے بستروں کا رخ کرتے۔ اب اس کے بعد صبح تڑکے اس شبھ مہورت کو پانا تقریباً نا ممکن ہوتا تھا۔
لیکن رمیش سوریہ نے اس بار اس کا خاص اہتمام کیا تھا۔ ایک ہفتہ قبل اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اس مہورت پر سمندر میں داخل ہو گیا اور اس کے جال میں مچھلیوں کی بجائے ایک سونے کا ناریل آ گیا۔ اس نے جب اس ناریل کو توڑا تو اس میں سے بطخ کے انڈے کی جسامت کا موتی نکل آیاجس سے اس کا گھر جگمگا نے لگا۔ گاؤں والوں نے یہ چمتکار دیکھ کر اسے اپنا راجہ بنا لیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ تخت پر بیٹھتا اور تاج اپنے سر پر سجاتا اس کی آنکھ کھل گئی، خواب نے دم توڑ دیا لیکن اس کے تکمیل کی خواہش نے جنم لے لیا پورنیما کی رات اس نے صرف اپنے اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی منت باندھی وہ رقص و سرور کی محفلوں سے بچتا بچاتا گھر آیا اور بستر پر لیٹ گیا اسے علی الصبح اٹھنا تھا،شبھ مہورت کشتی کھولنا تھی،لیکن آنکھوں میں نیند کہاں ؟ اب وہ جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہا تھا۔ اپنا محل اپنا تخت اپنا تاج اپنی فوج اور میدان جنگ یہ سب دیکھتے دیکھتے اسے نیند آ گئی۔
صبح منہ اندھیرے جب وہ سمندر کی جانب جا رہا تھا اسے جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی وہ چونک پڑا یہ کون ہے جو اپنا سپنا ساکار کرنے میں اس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ وہ سوچنے لگا کیا ایک ساتھ دو کشتیاں کھلیں گی اور ان میں مسابقت شروع ہو جائے گی اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گی اور پھر اس کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ نہیں ! اس کے اندیشے غلط ثابت ہوئے وہ کوئی جانور تھاجس نے اپنا رخ بدل دیا اور سمندر سے بستی کی جانب چل پڑا۔رمیش سوریہ کو قدرے اطمینان ہوا۔ انسان کو اپنے اقتدار میں کسی کی شرکت برداشت نہیں کرنا چاہئے۔وہ اقتدار خواب کے پردے میں چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ اقتدار حقیقی ہو یا مجازی وہ مزاج شرک سے پاک ہے۔ اپنی کشتی میں پہنچ کر رمیش نے دائیں بائیں تا حد نگاہ نظر دوڑائی، موت کی سی خاموشی دیکھ کر وہ خوش ہو گیا اور سورج دیوتا کا انتظار کرنے لگا۔ لنگر کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور پیروں میں پتوار پڑی تھی، آنکھیں افق پر گڑی ہوئی تھیں۔ سب کچھ عین منصوبے کے مطابق ہوا۔ اس کی کشتی سمندر کا سینہ چیر کر آگے بڑھنے لگی کہ اس نے لہروں پر تیرتی ایک نہایت حسین و جمیل ٹوکری دیکھی، اسے دیکھنے کے بعد وہ اپنا جال، ناریل اور خواب سب کچھ بھول گیا ایک مقناطیسی کشش اسے ٹوکری کی جانب لئے جا رہی تھی۔ چند لمحات کے اندر اس نے ٹوکری کو لپک لیا اور جیسے ہی اسے کھولا اس کی آنکھیں پھیل گئیں اس کے اندر ایک نہایت حسین و جمیل بچّہ مسکرا رہا تھا۔یہ قدرت کا تحفہ ہے، یہ اس کی دعاؤں کا ثمر ہے، یہ اس کی قسمت کا ستارہ ہے اس کا سورج ہے، اس کا چاند ہے، اس کا سب کچھ ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے اس نے کب اپنی کشتی کا رخ دوبارہ ساحل کی جانب کیا، کب اسے لنگر انداز کیا اور کیسے گھر پہنچا اسے کچھ بھی پتہ نہ چلا۔ اس کی جھونپڑی میں وہ اور اس کی بیوی چندا رہتے تھے۔ چندا کے سوا اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ایک کشتی کے حادثے میں اس کے سارے خاندان کو سمندر نے نگل لیا تھا۔ وہ معجزاتی طور پر بچا لیا گیا۔ اور جوانی میں اسے چندا نے اپنا لیا اور اس کی اپنی ہو گئی۔
چندا گہری نیند میں سو رہی تھی اس نے سوچا کہ چندا کو نہ جگائے لیکن صبر نہ کر سکا۔ اس نے چندا کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا۔
اٹھو بھاگیہ وان دیکھو آج پورنیما کی شبھ مہورت پر سوریہ دیوتا نے ہمیں کون سا انعام دیا ہے۔
چندا یہ سن کر چونک پڑی اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کیا ناریل مل گیا؟ اس نے سوال کیا۔
نہیں پگلی ناریل کے پیٹ سے مردہ موتی نہیں بلکہ ٹوکری کے اندر سے زندہ چہچہاتا ہوا لال۔
یہ کون ہے؟ چندا نے پوچھا۔ کس کا بچہ اٹھا لائے صبح صبح۔
کیا بکتی ہو؟ پرکاش بولا۔ ایسا خوبصورت بچہ کسی کے پاس ہے ہماری بستی میں یا آس پاس کی بستی یا ساری دنیا میں۔ ایسا خوبصورت کسی کا نہیں ہے کسی کا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارا چشم و چراغ ہے۔ یہ ہے ہمارا راجہ۔ میرا اور تمہارا راجہ۔ یہ سب کا راجہ ہے کتھا کنج کا راجہ ہے۔
بحر ہند کی ساحلی پٹی پر کئی ماہی گیری بستیاں آباد تھیں لیکن ان سب کا راجہ فقط ایک تھا راج گڈھ کا کٹھور سنگھ چند ر سینی نہ جانے کس منحوس گھڑی میں یہ روایت پڑی تھی کہ راجہ صرف چندر سینوں کے راج پریوار کا فرد ہو گا اور یہ روایت ایسی چلی کہ لوگوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ راجہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے سارے علاقے کی عوام نے محکومی کو اپنا مقدر مان لیا اور ہمیشہ کے لیے چند رسینی راجاؤں کو اپنا حاکم۔ اسی لیے پرکاش سنگھ سوریہ ونشی کی بات لوگوں کو عجیب و غریب لگنے لگی۔ جب گاؤں بھر میں چرچے عام ہو گئے تو پرکاش کا لنگوٹیہ یاررمیش اس سے ملنے آیا۔ دعا سلام کھان پان کے بعد اس نے کہا۔
پرکاش تم جانتے ہو آج کل لوگ تمہارے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں ؟
پرکاش نے حیرت سے پوچھا۔ کیا؟
جواب ملا۔ لوگ کہتے ہیں تمہارا دو ست پرکاش باؤلا ہو گیا ہے۔
وہ کیوں ؟ پرکاش نے پوچھا۔
اس لیے کہ تم کہتے ہو تمہارا بیٹا کتھا کنج کا راجہ ہونے والا ہے۔
اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ پرکاش بولا۔یہاں سے پانچ سو کوس دور راج گڈھ کا کٹھور سنگھ ہمارا راجہ ہو سکتا ہے تو میرا لال بھنور سنگھ سوریہ ونشی راجہ کیوں نہیں ہو سکتا؟
نہیں ہو سکتا۔ رمیش بولا۔ اس لیے کہ ایسا کبھی ہوا نہیں ہے۔
لیکن اگر ہوا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ کبھی ہو گا بھی نہیں۔
لیکن ایسی انہونی کے لیے کوئی کارن بھی تو ہونا چاہئے۔ رمیش نے اصرار کے ساتھ سوال کیا
پرکاش بولا۔ کارن، کارن کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر ہے بھی تو یہ کیا کم ہے کہ اس سے پہلے کبھی بھی سوریہ دیوتا نے ہمیں ایسا کوئی وردان نہیں دیا۔ بھنور ایکا دشی پورنیما کی صبح سوریہ دیوتا کا دیا ہوا وردان ہے۔ بھنور میں پھنسا ہوا یہ بچہ ہمیں کٹھور سنگھ کے کرور راجیہ بھنور سے مُکتی دلانے والا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے آواز دی۔ چندا ذرا اپنے راجہ کو باہر تو لاؤ۔
چندا فوراً لال ریشمی چادر میں لپیٹ کر بھنور سنگھ کو رمیش کے سامنے لے آئی۔ رمیش نے جب بچے کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اتنا خوبصورت بچہ اس نے کبھی بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ پرکاش سے ہونے والی ساری بحث کو یکسر بھول گیا۔ اس نے بھنور سنگھ کو اپنی گود میں لے لیا۔ اس کو چومنے لگا۔ اس سے کھیلنے لگا۔ اس سے باتیں کرنے لگا۔ بھنور سنگھ بھی کلکاریاں لے رہا تھا۔ دونوں ایک دوسری کی زبان نہ سمجھتے تھے لیکن ایک دوسرے سے بولے جاتے تھے۔ پرکاش اور چندا اس منظر کو دیکھ کر مسکراتے جاتے تھے۔
بھنور کے چرچے جب زبان زد عام ہو گئے تو ایک دن گاؤں پروہت دھرمیش سوریہ ونشی نے پرکاش کو اپنے پاس بلوایا۔ مندر میں پہنچ کر پرکاش نے پہلے پوجا ارچنا کی اور پھر پرساد لینے پروہت کے پاس جا پہنچا۔ پروہت نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔ دھرمیش نے چائے پان پیش کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پروہت جِیج مانی (میزبانی) کر رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے تو وہ مہمانی ہی کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ دعا سلام کے بعد دھرمیش نے پوچھا۔
پرکاش آج کل تم کیا بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟
کیسی بات؟پرکاش نے پوچھا۔
یہی کہ تمہارا بیٹا بھنور سنگھ کتھا کنج کا راجہ بنے گا؟
لیکن اس میں تعجب کی کیا بات ہے گرو دیو؟ پرکاش بولا۔ بھنور سنگھ راجہ کیوں نہیں بن سکتا؟
پھر وہی بات۔ ارے بدھو راج گڈھ کے راج پریوار کا دھرم راج دھرم ہے اور ہمارا کرم پرجا دھرم۔ وہ اپنا دھرم پالن کرتے ہیں اور ہم اپنا دھرم پالن کرتے ہیں جس سے ہمارے اور ان کے درمیان سنتولن (توازن) بنا ہوا ہے۔جب یہ سنتولن بگڑ جائے گا پرلیہ (قیامت) ہو جائے گا۔
پرکاش نے کہا۔ گرودیو آپ کا یہ پروچن اور آپ کی یہ بھویشہ وانی کیا کسی گرنتھ میں لکھی ہے؟ یا یہ آپ کے من کا سنکوچ ہے؟
یہ تو ایک ناگزیر حقیقت ہے بالک۔ اس کا کسی گرنتھ میں لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ تو پتھر کی لکیر ہے۔ ایسا ہو گا اور ایسا ہی ہو گا۔
پروہت نے جیسے ہی اپنی بات پوری کی پرکاش بولا۔ گرودیو ایسا آپ سوچتے ہیں یا چاہتے ہیں ؟
اس سوال پر دھرمیش سوریہ ونشی خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ بولے۔ میں یہ نہیں چاہتا۔ میں ہرگز یہ نہیں چاہتا۔ لیکن چونکہ یہی ہو گا اس لیے تمہیں سمجھاتا ہوں کہ یہ خیال اپنے ذہن سے نکال دو۔
پرکاش بولا۔ گرودیو آپ راج دھرم کی بات کر رہے تھے۔ کیا راج دھرم کا ارتھ نیائے استھاپنا نہیں ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کٹھور سنگھ انیائے اور اتیاچار کرتا ہے۔ اپنی پرجا کا سوشن کرتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو کیا اپنے راج دھرم کا پالن کرتا ہے؟
نہیں۔ وہ اپنے راج دھرم کا پالن نہیں کرتا۔ پروہت نے جواب دیا۔
اگر وہ اپنے دھرم کا پالن نہیں کرتا تو ہم اس کے تئیں اپنے دھرم کا پالن کیوں کریں ؟ بلکہ کیا انیائے اور اتیا چار کے وِرُدھ سنگھرش کرنا ہمارا دھرم نہیں ہے؟
پروہت دھرمیش سوریہ ونشی پرکاش کے آگے چاروں شانے چت ہو گیا۔ اس نے کہا۔ دیکھو ششیہ میں تم سے بحث نہیں کر سکتا۔ میں تمہارے سارے پرشنوں کا اُتّر نہیں دے سکتا۔ میں تو صرف تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو اور یہ ایسی آگ ہے جو نہ صرف تمہیں بلکہ ساری کتھا کنج کو بھسم کر دے گی۔
پرکاش نے کہا۔ دھنیہ واد گرو دیو۔ آپ کی بات صحیح ہو سکتی ہے۔ اگر یہ آگ ہمارے ساتھ ساتھ غلامی کی ان زنجیروں کو بھی پگھلا دے جس نے صدیوں سے ہمیں جکڑ رکھا ہے تو میں اس آگ کو بھی سوریہ دیوتا کا وردان سمجھوں گا۔
پروہت نے کہا۔ کاش کہ ایسا ہو۔
ایسا ہی ہو گا۔ یہ کہہ کر پرکاش نے دھرمیش کے چرنوں کو چھو کر وداع لیا۔
کتھا کنج گاؤں کا مکھیا نشچئے سنگھ سوریہ ونشی ایک نہایت ملنسار بزرگ تھے۔ سارا گاؤں ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ ہر گاؤں والے کے دکھ سکھ میں وہ برابر کے شریک رہتے تھے۔ ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے اور اسے حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔ لوگ ان کو بہت مانتے تھے اور ان کی ہر بات مانتے تھے۔ انہوں نے ہی دھرمیش پروہت سے کہا تھا کہ وہ پرکاش کو بلا کر سمجھائیں منائیں۔ لیکن ہوا یہ کہ پروہت خود پرکاش کی بات مان گئے۔ پرکاش کے جانے کے بعد پروہت بھی اپنے کمرے سے نکلے اور نشچئے کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ انہوں نے ساری بات من و عن سنا دی۔
پروہت کی بات سننے کے بعد نشچئے نے پوچھا۔ پرکاش کی چھوڑو تم اپنی بتاؤ۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
پرکاش کی بات حق ہے۔ پروہت نے کہا۔ میرا من تو یہی کہتا ہے۔
نشچئے نے پوچھا۔ پھر سنکٹ کیا ہے؟
سنکٹ یہ ہے کہ پرینام (انجام) سے ڈر لگتا ہے۔
یہ ڈر تمہیں لگتا ہے یا پرکاش کو بھی لگتا ہے؟
پروہت نے کہا۔ مجھے تو لگتا ہے۔ شاید پرکاش کو نہیں لگتا۔
نشچئے نے کہا۔ ٹھیک ہے میں اس سے بات کروں گا۔
پرکاش جس وقت نشچئے سنگھ کے گھر پہنچا دربار لگا ہوا تھا۔لوگ اپنی اپنی سناتے رہے اور نشچئے کی سن کر جاتے رہے۔ بہت سے لوگ پرکاش کے بعد آئے ان سے بھی نشچئے نے بات کی لیکن پرکاش کو نظرانداز کر دیا۔ پرکاش نے سوچا۔ یہ عجیب بات ہے مجھے بلا کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ شاید مکھیا جی ناراض ہیں۔ سب لوگ چلے گئے تو مکھیا نے پرکاش کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔
پرکاش تم سوچ رہے ہو گے تمہیں اتنا انتظار کیوں کروایا گیا؟
نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ پرکاش بولا۔
نشچئے نے کہا۔ کیوں نہیں ؟ بات ہے سو ہے۔اور بات دراصل یہ ہے میں تم سے ایکانت میں بات کرنا چاہتا تھا اور یہ طویل بات ہے۔ اس لیے باقی سب کو جلدی جلدی نمٹا دیا۔ تمہیں برا تو نہیں لگا؟
نہیں پردھان جی۔ آپ کی کسی بات کا ہمیں برا نہیں لگتا۔ اس لیے کہ آپ ہمارے خیرخواہ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ہم سے زیادہ ہمارے بہی خواہ ہیں۔
چھوڑو یہ سب باتیں۔ تم راجہ کا مطلب جانتے ہو؟
ہاں ہاں۔ بالکل جانتا ہوں۔
تو کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں ہو سکتیں اسی طرح ایک بستی میں کئی راجہ نہیں ہو سکتے۔
ہاں یہ بھی جانتا ہوں۔ لیکن پردھان جی اگر ایک بستی کے کئی راجہ نہیں ہو سکتے تو کئی بستیوں کا ایک راجہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟
نشچئے سنگھ پرکاش کے اس جواب سے چونک پڑے۔ پرکاش نے بات آگے بڑھائی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھنور سنگھ کتھا کنج کے ساتھ ساتھ راج گڈھ اور آس پاس کی تمام بستیوں کا بھی راجہ بنے گا میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ بھنور سنگھ کتھا کنج کا راجہ ہو گا۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہوتا ہے کہ اس صورت میں کٹھور سنگھ کتھا کنج کا راجہ نہیں ہو گا۔
بے شک اس کا یہ مطلب ہوتا ہے۔ پرکاش بولا۔
تو پھر کیا کٹھور سنگھ ہمارے اس فیصلے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا؟
پرکاش نے کہا۔ نہیں۔
اور اگر اس نے آس پاس کی تمام بستی والوں کے ساتھ ہم پر حملہ کر دیا تو ہمارا کیا ہو گا؟
لیکن دوسری بستی کے لوگ اس کا ساتھ کیوں دیں گے؟ جب کہ اس نے انہیں بھی غلام بنا رکھا ہے۔
نشچئے نے کہا۔ تمہاری بات صحیح ہے۔ غلاموں کو چاہئے کہ وہ غلاموں کا ساتھ دیں۔ لیکن ہوتا یہ نہیں ہے۔ غلام اکثر دوسرے غلاموں کے خلاف اپنے آقا کا ساتھ دیتے ہیں۔
پرکاش نے پوچھا۔ پردھان جی آپ نے دنیا دیکھی ہے۔آپ بتائیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
وہ ایسا اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں یا ڈر سے کرتے ہیں۔
لیکن ان کا ڈر کون ختم کرے گا؟وہ جو خود ڈرا ہوا ہو یا خود نڈر ہو؟پرکاش نے سوال کیا۔
نشچئے نے کہا۔ جو نڈر ہو۔
تو ہمیں نڈر بننا ہو گا۔
نشچئے بولے۔ تم تو پہلے سے نڈر ہو پرکاش۔ یہ کہو کہ تمہیں نڈر بنانا ہو گا۔
لیکن ایک سمسّیا پھر بھی ہے۔ اگر دوسری بستیوں کے لوگ کٹھور سنگھ کے ساتھ نہ بھی آئے تب بھی راج گڈھ کے لوگ ہی ہماری اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے کافی ہیں۔
لیکن پردھان جی کیا کٹھور سنگھ راج گڈھ کی جنتا کا سوشن نہیں کرتا؟ ان پر انیائے اور اتیا چار نہیں کرتا؟
کرتا ہے۔
تب کیا ان کے من میں بھی کٹھور سنگھ کے خلاف آ کروش نہیں ہے۔
ہے۔ لیکن وہ ان کا اپنا آدمی ہے۔
انیائے تو انیائے ہوتا ہے چاہے وہ اپنے دوارا ہو یا پرائے دوارا۔بلکہ اپنے کا اتیا چار زیادہ کھلنا چاہئے۔
تمہاری بات تو صحیح ہے لیکن اس کو چھوڑ کر وہ تمہارا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں ؟ وہ ان کا اپنا آدمی ہے اور تم پرائے ہو۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں ہم اپنی حفاظت آپ کر سکتے ہیں ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کا ساتھ نہ دیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو کٹھور سنگھ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے گا بلکہ جب وہ یہاں سے پراجت ہو کر لوٹے گا تو اپنا سنہاسن بھی غائب پائے گا۔
پرکاش اور نشچئے سنگھ کی بات چیت چل ہی رہی تھی کہ پنچایت کے کچھ معمر سدسیہ دھرمیش پروہت کے ساتھ اجازت لے کر نشچئے سنگھ کی سیوا میں حاضر ہوئے اور ایکانت میں کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔
پرکاش کھڑا ہو گیا لیکن نشچئے نے کہا۔ پرکاش بیٹے بیٹھ جاؤ اور پنچایت کے لوگوں کی جانب مڑ کر کہا۔نسنکوچ ہو کر کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟
دھرمیش بولا۔ پردھان جی کٹھور سنگھ کتھا کنج کے باسیوں پر آگ بگولہ ہو گیا ہے اور اپنی فوج کے ساتھ ہماری جانب کوچ کر چکا ہے۔ اب تُرنت کچھ کریں ورنہ پرلیہ ہو جائے گا۔
نشچئے نے کہا۔ مصلحت اور مصالحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ جاؤ مندر کے ڈھنڈورچی سے اعلان کروا دو ہم مقابلہ کریں گے۔پرکاش سنگھ سوریہ ونشی ہمارا سینا پتی ہو گا۔
سینا پتی نہیں بلکہ ہمارا راجہ… راجہ پرکاش سنگھ سوریہ ونشی!
٭٭٭