آوارہ خیال
ڈاکٹر بلند اقبال
وہ ا یک آوارہ خیال تھا جسے ایک دن اوروں کی طرح ایک جسم میں بو دیا گیا۔ شروع شروع میں تو اُسے کچھ نہ پتہ چلا مگر پھر کچھ دنوں میں وہ نمو پانےلگا ،اُس کے ہاتھ پاؤں اُگنے لگے اور ایک دن وہ پورا ثابت ثا لم دھڑ بنگیا۔ ایسا دھڑ۔ ۔ جسے وقت کا عذاب سہنا تھا۔ ایسا دھڑ۔ ۔ جسے دُنیا میں رہناتھا۔
عجیب جگہ تھی وہ دُنیا۔ ۔ ایسا بازار۔ ۔ جہاں اُس جیسے دھڑوں کے رنگبکتے تھے۔ جہاں اُن کی نسلوں کے لحاظ سے قحبہ خانے تھے۔ جہاں عقیدوں کے الگالگ ڈربے تھے جن میں بھانت بھانت کے دھڑ،ادھ مری سہمی ہوئی مرغیوں کی طرح،خود کے کٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ تو وہ بھی ایک دن اُس بازار میں اوردھڑوں کی طرح شامل ہو گیا۔ ، وقت کے عذاب کو سہنے لگا اور اپنے رنگ،نسل اورعقیدے کے لحاظ سے بکنے لگا مگر پھر وہ دنا یا۔ ۔ جب کسی بوٹیاں نچڑیطوائف کی طرح اُس کے بھی سب گاہک اُس پر اچٹتی ہوئی نظریں ڈال کر اُسے تنہاچھوڑ گئے۔ تو وہ تنہا ، چُپ چاپ اور اُداس اپنے دھڑ کی کھولی میں پڑا اُسکے مرنے کا انتظار کرنے لگا کہ اُس کی موت میں ہی اُس آوارہ خیال کی آزادیتھی۔
شاید اُس کا دھڑ مر بھی جاتا اور وہ پھر کسی آزاد گمنام خیال کیطرح ایک بار اور کسی نئے جسم میں بو دیا جاتا ، وقت کے عذاب کو سہتا ، باربار بکتا، بوڑھا ہوتا اور مرتا۔ ۔ ۔ مگر یہ ہوا کہ اُس نے جسم کے عذاب سےمُکتی پانے کی ٹھانی کہ۔ ۔ یہ جسم ہی تو تھا جو جو وقت اور جگہ کا مارا ہواتھا۔
تو اُس صبح اُس نے اپنے جسم کو سورج کی کرنوں سے دھویا۔ وہ سب رنگنوچ نوچ کر نکالے جو کچے اور جھوٹے تھے۔ اور پھر اُن رنگوں سے خود کے بدنکو سجایا جو پکے اور سچے تھے۔ اُسے لگا۔ ۔ سچ ہی تو وہ رنگ ہے جو دُنیا کےبازاری رنگوں پہ بھاری ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔
تو اُس شام وہ دیر تک چاند کے عکس سے باتیں کرتا رہا۔ اُس کی ٹھنڈکسے اپنے جسم کی نسلی آگ کو بُجھاتا رہا کہ یہ تقسیم سکون کی مُتلاشی تھی۔ سکون۔ ۔ جو اُس کے جسم کو وقت کے عذاب سے بچا سکتا تھا۔ سکون۔ ۔ جو موت جیساہو مگر زندگی میں ہی اُس کے بوڑھے دھڑ کو مل جائے۔
تو جب ساری ہی ادھ مری مُرغیاں ایک ایک کر کے دم توڑنے لگی تو اُس نے پیارکے پانی میں اشنان کیا اور محبت و پیار کی طاقت سے عقیدوں کے سارے ہی پنجرےتو ڑ ڈالے اور ایک ایک کر کے سب دھڑوں کو آزاد کرنے لگا۔
وہ دن اُس کے گیان کا تھا۔ وہ دن۔ ۔ جب سچ، سکون اور محبت اُس آوارہخیال سے روشن کرنوں کی طرح پھوٹ رہے تھے اور اُس کے بوڑھے دھڑ کو وقت کےعذاب سے مُکتی دے دہے تھے۔
***