ایک زہریلی کہانی
عوض سعید
اس نے ابھی گھرکی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ اس کی بیوی نے گھبراہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ آج مْنّا گھر سے غائب ہو گیا ہے۔
اسے یقین تھا کہ اس خبر کو سننے کے بعد اس کا شوہر اسے کافی ڈانٹ پلائے گا، کم از کم الٹے پاؤں ہی گھر سے اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑ ے گا، مگر خلافِ توقع وہ بڑے اطمینان سے گھر میں داخل ہوا، منہ ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے تبدیل کیے اور اپنی بیوی سے چائے کی ایک پیالی کی فرمائش کی، اس دوران اس کی بیوی نے جو کچھ کہا وہ اسے محض سنتا رہا۔
اپنے شوہر کو اطمینان سے چائے پیتا ہوا دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی،یہ حیرانی اس وقت اور بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر چائے پینے کے بعد اخبار بینی میں مصروف ہو گیا ہے۔ اسے ایک ثانیے کے لیے یہ سب کچھ عجیب سا لگا، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ آدمی اس کا شوہر بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس خبر کو سننے کے بعد اس نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا ہو، یا وہ یہ بھی سمجھ رہا ہو کہ مْنّا ادھر ادھر بھٹک کر کسی طرح گھر آ جائے گا۔ وہ سوچ کی گہرائیوں میں ڈوبی اپنے آپ کو ایک ایسی بے بس عورت سمجھ رہی تھی جس کا آخری سہارا بھی ٹوٹ چکا ہو۔
اچانک کسی نے اس کے گھر پر دستک دی۔
’ ’ باہر کوئی آواز دے رہا ہے۔ ‘‘ اس کی بیوی نے اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر کہا جو اخبار پڑھنے میں کچھ اتنا منہمک تھا کہ اسے اپنی بیوی کی آواز بھی اب پرائی سی لگ رہی تھی۔
’’ ہو سکتا ہے کوئی مْنّے کو لے آیا ہو یا خود مْنّے نے گھر پر دستک دی ہو۔‘‘
’ ’ اپنے گھر پر خود مْنّا دستک دے ، کیا کہہ رہی ہو۔ مْنّا اگر ہوتا تو دروازے ہی میں سے چیخ اٹھتا۔ ’ ’ دروازہ کھولیے۔‘‘
اس نے اطمینان سے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
’’ ارے الطاف تم۔۔۔ ؟ ‘‘ اس نے خوشی سے بوکھلاتے ہوئے کہا۔
’’ کب آئے۔‘‘
’’ آج ہی۔‘‘
’’ اندر آ جاؤ یار‘‘
اس کی بیوی نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھا۔ ’’ اس کم بخت کو بھی آج ہی آنا تھا، اب پھر چائے کا دور چلے گا۔ ’’ اور ہوا بھی وہی، اس نے چائے کے لیے ہانک لگائی، اس کی بیوی نے چائے کی کیتلی کو بڑی بیزاری سے چولھے پر رکھا اور وہیں سوچتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
چائے کی پیالیوں کی آواز سن کر اس کے شوہر نے اندر باورچی خانے میں آ کر کہا۔ ’ ’ رات کے کھانے پر میں اسے روک رہا ہوں ، دو ایک ڈھنگ کے سالن تیار کر لینا۔‘‘
اس کی بیوی نے زہر آلود نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا،مگر وہ کچھ کہہ بغیر چائے کی کشتی ہاتھ میں تھامے ڈرائنگ روم میں آ کر اپنے ساتھی سے گپیں ہانکنے لگا۔
’ ’ بڑی عمدہ چائے بنائی ہے بھابی نے۔ ‘‘ اس کا ساتھی کہہ رہا تھا۔
’’ شاید نشانہ غلط لگ گیا ورنہ ایک آنچ کی کسر ہمیشہ باقی رہتی ہے ، ایسا لگتا ہے کینٹین کی گاڑھی اور بد مزہ چائے پیتے پیتے تمھارے منہ کا مزہ بدل گیا۔‘‘
وہ یہ سب باتیں سن رہی تھی، اس کا سارا دھیان مْنّے ہی کی طرف تھا، وہ سوچ رہی تھی اُس کا شوہر کتنا بے حس ہے ، اپنے ساتھی کو رات کے کھانے کی دعوت دے رہا ہے ، جب کہ مْنّا۔۔۔
وہ سسکیاں بھر کر رونے لگی۔
’’ میں نے ابھی ابھی کسی کے رونے کی آواز سنی، بھابی تو ٹھیک ہے نا۔‘‘
اُس کا ساتھی کہہ رہا تھا۔
’ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’ اور مْنّا ۔۔۔ ؟‘‘
’’ ہٹاؤ یار مْنّے کے ذکر کو، بات چیت کے لیے کوئی اور موضوع نہیں ہے تمھارے پاس۔ ‘‘ ا سے امید نہیں تھی کہ اس کا ساتھی بے اعتنائی کی اس سطح پر اتر آئے گا، اب اس کی باتوں میں وہ گرمی نہ تھی، پھر بھی وہ ایسے تیسے باتیں کیے جا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بٹا ہوا تھا۔
’ ’ بے حس آدمی مرتا بھی تو نہیں۔۔۔ ‘‘ اندر سے ایک غصیلی آواز ابھری، وہ سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ دیگر ہے ، وہ اپنے ایک قریبی یار سے چھپا رہا ہے۔ یہ آواز بھابی کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے ،مگر وہ تو اس کے سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہے ، آخر یہ کس قماش کا آدمی ہے ، نہ اسے اپنی بیوی سے پیار ہے اور نہ بچے سے ، وہ پہلے تو ایسا نہ تھا، کہیں ایسا تو نہیں آج اس نے بیوی سے لڑائی کی ہو یا بچے کو کافی پیٹا ہو۔
’’ تمھیں آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہو گا۔ ‘‘ وہ اپنے ساتھی سے اس طرح کہہ رہا تھا جیسے وہ کھائے بغیر چلا جائے گا تو وہ بھوکا رہ جائے گا۔
اُس نے حامی بھر لی تو وہ خوش ہو گیا۔
’’ مگر بھابی کو خواہ مخواہ تکلیف ہو گی۔‘‘
’’ عورت تکلیف اٹھانے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے۔‘‘
یہ جواب بھی اس کے لیے کچھ غیر متوقع تھا۔
’’ لیکن یہ ممکن نہیں کہ بھابی بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوں ؟‘‘
’’ تمھاری بھابی نے سب سے ملنا ترک کر دیا ہے ، وہ کھانے پر نہیں آئے گی۔ ‘‘اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ فرحت و طمانیت اٹھ چکی ہے جو کبھی اس نے اس گھر میں دیکھی تھی۔
دفعتاً اندر سے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ شاید کھانا تیار ہو گیا ہے ، یہ کھانے کی تیاری کا الارم ہو سکتا ہے۔‘‘
وہ اندر چلا گیا۔
’’ کھانا تو تیار کر دیا ہے ، مگر مْنّے کو بھی ضرور بلوا لینا، پتہ نہیں وہ کہاں بھوکا مر رہا ہو گا۔ ‘‘ یہ اس کی بیوی کی آواز تھی۔
جب وہ کھانے کی کشتی لے کر اندر آیا تو کچھ بجھا سا لگ رہا تھا، ابھی اس نے ٹیبل پر کھانا چنا ہی تھا کہ اس کے کانوں سے پھر ایک بار آواز ٹکرائی۔۔۔
’’ بے حس آدمی مرتا بھی نہیں۔‘‘
’’ کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ بے حس آدمی کون ہے جو مرتا بھی نہیں ، کہیں وہ میں تو نہیں ہوں۔‘‘
’’ مگر بھابی۔۔۔!!‘‘
’’ ہاں جب سے مْنّا مرا ہے وہ اسی طرح باتیں کرتی ہے۔!‘‘
٭٭٭