کینوس پر چہرے اور میں
قاسم خورشید
شروعِ سفر میں لگاتار حادثوں کے حصار میں رہا، سمجھ نہیں پارہا تھا کہ بچپن کب شروع ہوتا ہے، سن بلوغت کی کیا اہمیت ہے یا پھر والدین کے سائے میں کس طرح سکون کا احساس ہوتا ہے۔ دراصل کم عمری میں باپ کی شفقت سے محروم ہونے، زمینداری کے مٹتے ہوئے نقوش کے درمیان شرافت کے لبادے میں اوڑھی ہوئی مفلسی کو دیکھ کر عجیب کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔ ہوا تیز تھی اور چراغوں کو بھی روشن رہنا تھا۔ زمین اور آسمان کے درمیان سوالوں کا لامتناہی سلسلہ تھا۔ بار بار حضرت ابراہیم ؑ کی اس روایت پر ایمان لانے کی خواہش ہوئی کہ جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھتی، سورج کو پہلی بار دیکھتا، اور اس کی روشنی سے سارے عالم کو منور ہوتا ہوا محسوس کرتا تو اُسے اپنا خدا مان لینے کی خواہش ہوتی۔ مگر یہ سلسلہ بھی دن کی روایت کے ساتھ ختم ہو جاتا۔ مایوسی، ڈوبتے ہوئے سورج اور گہری ہوتی ہوئی شام کے سائے میں ایک بار پھر ابھرتی اور چند لمحوں بعد پھر میں آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کو دیکھ کر اپنے خدا کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا۔ مگر یہ کیا! کہ لگاتار تیرہ دنوں کی تگ و دو کے بعد آسمان پر مکمل چاند نمودار ہو گیا، تو پھر اس میں ہی اپنے خالق کو، اپنے رہنما کو تلاش کرنے لگا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد کو قبر میں اُتار کر آخری دیدار کے لیے لوگوں کو بلایا گیا تھا تو کسی نے مجھے بھی گود میں اٹھا کر ان کا دیدار کروایا تھا۔ اس وقت قبر میں اُتارنے والے شخص نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ ’’دیکھ لو بابو! اب تمھارے ابّو کبھی نہیں آئیں گے‘‘۔ میری سمجھ میں اس وقت یہ بات نہیں آئی تھی اس لیے فرمانبردار بچے کی طرح حامی میں سر ہلا دیا تھا۔ مگر جب واقعی ابّو کئی مہینوں تک نہیں لوٹے اور شامِ غریباں طویل ہوتی رہی، ایسے میں لوگ غم سے نڈھال ہو کر سو جاتے تو ایک روز مَیں چپکے سے آنگن کی چھت کے نیچے اُولتی کی اُوٹ میں چھپ کر دیر تک آسمان کو دیکھتا رہا۔ پھر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرا بچپن آسمان سے مخاطب ہو کر گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اے اللہ! مجھے معلوم ہے، تُو آسمان پر رہتا ہے، میرے ابّو کو تو نے بلا لیا ہے۔ میرے گھر کے سب لوگ بہت غمگین ہیں، تُو انھیں بھیج دے۔ میری دعا سن لے۔ اور جب یہ دعا قبول نہیں ہوئی تو ایک روز پھر میں نے آسمان کے خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے ابّو کی تمھیں بہت زیادہ ضرورت ہے تو انھیں رکھ لے مگر مجھے جلدی سے بڑا کر دے تاکہ میں ا بّو کی طرح سارے گھر کا بوجھ اٹھا سکوں، سب کی آنکھوں میں خوشیاں بھر سکوں۔ مگر یہ دعا بھی قبول نہیں ہوئی بلکہ اذیتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ بچپن کھو گیا اور ہر لمحہ میلوں تک پھیل گیا۔ وقت کی لمبی اسیری اور پربت کاٹ کر راستے گڑھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ حقیقتیں بے اماں ہوتی رہیں۔سورج، چاند، ستارے ایک ایک کر کے سب میری رہنمائی سے قاصر ہوتے رہے۔ میرا تو حضرت ابراہیم ؑجیسا کوئی رہنما بھی نہیں تھا تو پھر تھک ہار کر اپنے اندر ہی کسی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ کہاں شفقتیں، کہاں محبتیں، کہاں کامیابیاں، کہاں خوشیاں، کہاں لوگوں کی توجہ کا مرکز، کہیں کچھ بھی تو نہیں تھا۔ مگر ایک جذبہ بار بار مجھے وسعتیں عطا کر رہا تھا اور وہ تھا تخلیقی کرب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ نہ جانے کیا کچھ میرے اندر ایک بیج سے پیڑ اور پھر پیڑ سے تناور درخت بننے کے عمل میں تھا اور اذیتوں کے درمیان ہی شاخیں ہری ہو رہی تھیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ انہیں کے سائے میں میری تخلیقی کائنات بتدریج وجود میں آرہی تھی۔ میں نقشِ فریادی اور شوخیِ تحریر کے معنیٰ کو سمجھنے کی کوششوں میں مشغول ہو چکا تھا۔ یہ تو عجیب دنیا تھی۔ اسے سمجھنے کے لئے ایک کیا ہزاروں زندگیاں بھی کم تھیں۔ میں نے اپنے جوان باپ کی موت دیکھی تو یہ احساس شدید رہا کہ ہمارے پاس بہرحال طبعی زندگی بہت کم ہے۔ اور جہاں تک روح کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دسترس میں نہیں۔ مگر جو کچھ بھی ملا ہے، اسے کوئی معنیٰ ضرور عطا کرنا ہے۔ دورانِ سفر میرے ہاتھ میں ایک قلم آیا۔ پھر خود کو لکھ کر حرف حرف آشنا ہونے لگا۔ کبھی اندر کے اداکار نے دنیا کے اسٹیج سے اپنے ناظرین کو متوجہ کیا کبھی پینٹنگ کے ذریعہ اپنے جذبات کی ترجمانی میں لگ گیاتو کبھی خاموش رہ کر خواب بُنتا رہا۔ خیر! مجھے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ واقعی یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا۔ بلکہ ہم جو راہیں بناتے ہیں اس کے دعویدار بھی لگاتار ہمارا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ کئی بار اپنی بنائی ہوئی زمین پر یزیدی لشکروں کو قبضہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسا نہیں کہ میں ان سے کمزور تھا مگر اپنی وسعتوں یا نیاآسمان گڑھنے کی وجہ سے ہم نے اپنی زمینوں کو ان کے حوالے کر دیا۔ یوں تو دادی اماں سے سنی ہوئی کہانیوں میں اپنے کرداروں کو شامل کرتا رہا یا پھر ان کہانیوں کی تخلیقیت سے اپنی دنیا روشن کی۔ اور نہ جانے کب؟ شاید اس وقت جب محض اسکول سے فارغ ہوا تھا، میں نے پہلا افسانہ ’روک دو‘ تخلیق کیا۔ افسانہ شائع ہونے کے بعد جب بے حد پذیرائی ہوئی تو میرے اندر مزید اعتماد پیدا ہوا اور پھر اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہاں، میں نے کبھی فورم کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جتنی کہ تخلیقیت کو۔ یہی وجہ تھی کہ متن کے حوالے سے میں جس فارمیٹ میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتا، بہ آسانی ڈھل جاتا۔ اسی لئے جہاں افسانے لکھتا رہا وہیں ڈرامے، فیچر اور غزلیں، نظمیں بھی تخلیق کرتا رہا۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر لوگ صنف سے فنکار کا تعین کیوں کرتے ہیں ؟ غالب جیسے بڑے شاعر کے نثری کارناموں، یا شیکسپیئر کی نظموں اور ان کے ڈراموں یا پھر احمد ندیم قاسمی اور ایسے ہی دنیا کے بڑے تخلیق کاروں کو کیا کسی ایک صنف میں طبع آزمائی کے لئے جانا پہچانا جاتا ہے؟ اصل میں یہ سوال ان کے لئے زیادہ اہم ہو سکتاہے جو اپنے متن کو ضرورت کے مطابق مختلف اصناف میں ڈھالنے کے اہل نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے میں خود کو محض افسانہ نگار یا شاعر یا ڈرامہ نگار کہلانے کے لئے تگ و دو کرنے سے قاصر رہا بلکہ اپنے متن یا Contentکے حوالے سے ہی لوگوں کی توجہ کا طالب رہا۔ جن کا وژن وسعتوں پر مبنی ہے انہوں نے ہمارے اس جذبے کی بے حد پذیرائی کی بلکہ میرے اعتماد کو اصناف کے حوالے سے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں خود کو منوا لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر اردو ادب کے لئے یہ مشکل ترین مرحلہ تھا۔ مگر یہاں بھی بہرحال ذہانت کی کمی نہیں رہی ہے اسی لئے میں خاموشی سے جو کچھ بھی لکھتا، ہند و پاک کے بڑے رسائل کے حوالے کر دیا کرتا۔ میرے افسانے سب سے پہلے ہند و پاک کے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ بعد میں بہار نے مجھے قومی یا بین الاقوامی رسائل کے توسط سے ہی پہچانا۔ ممکن ہے اگر لوگ میری عمر یا ایک معمولی شخص کی سماجی حیثیت سے واقف ہو جاتے تو تخلیقی ادب میں وہ اہمیت نہیں ملتی۔ اس لئے تخلیق کاروں کے لئے سب سے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو بہت اعتماد کے ساتھ زمانے کے سامنے پیش کریں۔ دنیا کی کوئی بھی بڑی لابی یا ادب