موچی بیل
علی حسن سمند طور
بھلے ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے ماحول کی آرائش کرتے ہیں۔ اپنے اطراف کو یوں دیدہ زیب اور خوشگوار بنانا کہ دوسرے لوگ اس ماحول کا حصہ بن کر خوش ہو جائیں، صدقہ جاریہ نہیں ہے تو کیا ہے؟ تو وہ ایسا ہی ایک دلکش منظر تھا۔سفیدے کا ایک ہرا بھرا خوب صورت درخت تھا کہ معلوم دیتا تھا کہ درخت کے رکھوالے نے بہت محنت سے درخت کی آب پاشی یوں کی ہے کہ پانی کی پھوار سے ایک ایک پتہ دھل گیا ہے۔ پھر اس درخت پہ نہایت سلیقے سے وہ بیل چڑھائی گئی تھی جو کراچی میں اکثر موچیوں کی دکانوں پہ نظر آتی ہے اور اسی مناسبت سے موچی بیل کہلاتی ہے۔ وہ بیل موچی کے ٹھیے کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس میں کاسنی پھول لگتے ہیں۔ درخت کے سہارے چڑھائی جانے والی یہ بیل اب اوپر پہنچ کر شاخوں سے لپٹ گئی تھی اور اس پہ جھولتے کاسنی پھول بہت جاذب نظر تھے۔ تو وہ یہ منظر تھا: سفیدے کا سرسبز دھلا دھلایا توانا درخت، موچی بیل جو درخت کی شاخوں سے یوں لپٹ گئی تھی جیسے ننگی بانہوں پہ آستین چڑھا دی جائے اور پھر اس سبزے میں کھلتے خوش نما پھول۔ یہ منظر یوں بھی بھانے والا تھا مگر خاص طور سے جب جولائی میں مون سون کے بادل آئے ہوں، آپ زندگی سے خوش ہوں، اور تین دن میں آپ کی شادی آپ کی محبوبہ سے ہونے والی ہو تو منظر کی دل کشی میں کھو کر اپنے اطراف کو بھلا دینا بہت آسان تھا۔ تو بس یہی کیفیت تھی شاکر کی۔ سڑک سنسان تھی اس لیے شاکر موٹرسائیکل بے فکری سے چلا رہا تھا۔ اس کی ساری توجہ درخت پہ جھومتے موچی بیل کے کاسنی پھولوں کی طرف تھی۔ سڑک کی طرف شاکر کی توجہ اس وقت پلٹی جب دفعتاً اس کو احساس ہوا کہ اس کی موٹرسائیکل کسی چیز سے ٹکرانے والی تھی۔ اس نے موٹرسائیکل کو تیزی سے بائیں رخ پہ موڑا اور سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس عمل میں موٹرسائیکل گرپڑی اور شاکر اس کے ساتھ زمین پہ آ رہا۔ ٹھیک اسی وقت گاڑی والے نے بھی زوردار بریک لگایا۔ گاڑی رک گئی۔ گاڑی چلانے والا شخص چگی داڑھی والا ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ شاکر کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا۔ گاڑی والے نے کھڑکی سے سر نکال کر شاکر کو ڈانٹا، "برخوردار، موٹرسائیکل چلاتے ہوئے سڑک پہ دھیان رکھنا سیکھو ورنہ جان دے بیٹھو گے کسی روز۔"
شاکر اس تنقید پہ غصے میں آگیا۔
"ابے چل یہاں سے۔ دفع ہو جا۔ بڑا آیا مجھے نصیحت کرنے،" شاکر اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
گاڑی چلانے والا سمجھ گیا کہ اس کا سابقہ کسی بدتمیز نوجوان سے پڑا تھا۔
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوتاہی صرف موٹرسائیکل چلانے کی تربیت میں نہیں ہے بلکہ اخلاقی تعلیم میں بھی ہے،" گاڑی چلانے والے نے بس اتنا کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ یہ واضح تھا کہ وہ شاکر سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔
"چل یہاں سے مادر ---" شاکر نے چیخ کر گاڑی والے کو گالی دی مگر اس وقت تک گاڑی آگے نکل چکی تھی۔ نہ جانے شاکر کی یہ گالی گاڑی والے کو سنائی دی یا نہیں۔
شاکر نے موٹرسائیکل زمین سے اٹھائی۔ ایک ہی کک میں موٹرسائیکل پھر چالو ہو گئی۔ شاکر گھر آگیا۔
شاکر گھر پہنچا تو ماں کو شاکر کے گرد آلود کپڑے نظر آ گئے۔
"کیا ہوا، شاکر، خیریت تو ہے نا؟" ماں نے گھبرا کر شاکر سے پوچھا۔ شادی کا گھر تھا،وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ سب لوگ شاکر کے گرد جمع ہو گئے۔
"ہاں، اماں، خیریت ہے۔ بس موٹرسائیکل سے گر گیا تھا،" شاکر نے جواب دیا اور پھر مختصرا موٹرسائیکل سے گرنے والا واقعہ سب کو سنایا۔ شاکر کی چوٹیں معمولی تھیں۔ ماں اور دوسرے رشتہ داروں نے بچے کی خیریت پہ خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر سب لوگ شادی کی تیاریوں میں لگ گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔
تین دن میں شاکر کی شادی رخسانہ سے ہونے والی تھی۔ شاکر کے والدین شروع میں "محبت" کی اس شادی کے خلاف رہے تھے مگر آخر میں انہوں نے لڑکے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ شاکر اور رخسانہ ایک دوسرے سے ایک انگریزی سکھانے والے ادارے میں ملے تھے۔
پھر دیکھتے دیکھتے انتظار کے تین دن بھی گزر گئے۔ شادی کی بات طے ہونے سے پہلے شاکر اور رخسانہ فون پہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے تھے مگر جب سے بات پکی ہوئی تھی اور شادی کی تیاریوں نے زور پکڑا تھا، یہ بات چیت بند ہو گئی تھی۔ اور اب شادی کے روز شاکر بے انتہا خوش تھا کہ آج سب حجاب اٹھ جائیں گے اور رخسانہ سے خوب کھل کر ساری باتیں ہوں گی۔
شاکر کے باپ کی خواہش کے برخلاف بارات کو گھر سے نکلتے نکلتے کافی تاخیر ہو گئی۔ شاکر اپنے والد کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ اس کے ایک طرف اس کے والد اور دوسری طرف والدہ تھیں۔ بارات میں آٹھ گاڑیاں تھیں اور سب سے پیچھے ایک وین چل رہی تھی۔ بارات شادی ہال پہنچی تو وہاں بارات کا استقبال کرنے والے پوری تیاری سے کھڑے تھے۔ شاکر گاڑی سے اترا تو دوسری گاڑی سے اتر کر اس کے ماموں اس کے پاس آ گئے۔ شاکر سہرا لگائے اپنے باپ اور ماموں کے ساتھ بارات کا استقبال کرنے والوں کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی یہ لوگ چند ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ شاکر کو دلہن والوں کی طرف سے استقبال کرنے والے لوگوں میں رخسانہ کے والد کے ساتھ وہ آدمی کھڑا نظر آیا جس کی گاڑی سے تین دن پہلے شاکر کا حادثہ ہوتے ہوتے بچا تھا۔ شاکر کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ اب تک جو قدم پراعتماد انداز سے آگے بڑھ رہے تھے، ٹھٹھک گئے۔ شاکر کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کی ٹانگوں سے جان نکال لی گئی ہو۔ شاکر کے ماموں نے لڑکے کا تردد محسوس کیا مگر اس بارے میں کوئی خاص خیال نہیں کیا۔
"چلو، شاکر بیٹا، چلو،" ماموں نے شاکر سے کہا اور شاکر مختلف اقسام کے خوف کو دل میں لیے آگے بڑھنے لگا۔ رخسانہ کے والد نے بڑھ کر شاکر سے ہاتھ ملایا اور شاکر کے گلے میں ہار ڈالا۔ پھر جب ان کے ساتھ کھڑے آدمی نے شاکر سے ہاتھ ملایا تو رخسانہ کے والد نے اس شخص کا تعارف شاکر سے کرا دیا۔
"شاکر بیٹا، یہ میرے وہی چھوٹے بھائی یوسف ہیں جن کا ذکر میں نے تم سے پہلے کیا تھا۔ یہ سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے رخسانہ کی شادی میں شرکت کے لیے یہاں پہنچے ہیں۔"
اس آدمی نے شاکر سے ہاتھ ملانے کے بعد شاکر کے گلے میں ہار ڈالا اور پھر شاکر آگے بڑھ گیا۔
"کیا اس آدمی نے، جسے مجھے اب یوسف چچا کہنا پڑے گا، مجھے بالکل نہیں پہچانا؟" شاکر نے دل ہی دل میں سوچا۔
اور لوگوں سے ہاتھ ملانے اور ہار وصول کرنے کے بعد شاکر کو اسٹیج پہ بٹھا دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شادی ہال بھرتا گیا۔ لوگ آ کر شاکر سے ملتے رہے اور شاکر بہت کوشش سے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے سب سے باتیں بھی کرتا رہا مگر اس کے ذہن میں ایک طوفان برپا تھا۔
"کہیں ایسا تو نہیں کہ یوسف چچا نے میرا استقبال کرتے ہوئے مجھے نہیں پہچانا مگر اب پہچان لیا ہو؟ کہیں وہ کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں؟" شاکر کے اندر ایک خوف نے سر ابھارا۔ اور پھر مختلف جذباتی مکالمات اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔
"نہیں، میں اپنی بھتیجی کی شادی اس قدر بد اخلاق آدمی کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ لے جاؤ اس بارات کو۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"
وقت گزرتا گیا اور بہت دیر تک یوسف چچا شاکر کو کہیں نظر نہ آئے۔ اطمینان کی ایک کیفیت شاکر پہ طاری ہوتی گئی۔ پھر نکاح کا وقت آگیا۔ شاکر کی خواہش تھی کہ کسی طرح جلد از جلد نکاح ہو جائے، اس سے پہلے کہ یوسف چچا بیچ میں کوئی رخنہ ڈالیں۔
"ایک بار نکاح ہو جائے تو پھر بیڑا پار ہے، پھر یہ یوسف چچا جو چاہیں باتیں بنائیں"، شاکر نے دل میں سوچا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ نکاح بخیر و خوبی ہو گیا۔ اب شاکر اور بھی مطمئن ہو گیا۔ مگر پھر سب رشتہ داروں نے باری باری دولھا دلہن کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں۔ یوسف چچا بھی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ آئے۔ انہیں دیکھ کر شاکر کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ مگر یوسف چچا شاکر کے گلے میں ہاتھ ڈال کر، مسکرا تے ہوئے تصویر کھنچوا کر روانہ ہو گئے۔
اب شاکر کے دل میں اور طرح کے خیالات آئے۔
"کیا یہ وہی آدمی ہے، یا کوئی اور ہے جو بالکل اس جیسا معلوم دیتا ہے؟
نہیں، یہ وہی آدمی ہے۔
کیا اس آدمی نے مجھے نہیں پہچانا؟
شاید میں آج شیروانی میں بہت مختلف نظر آ رہا ہوں اور اسی وجہ سے یہ آدمی مجھے پہچان نہیں پایا ہے۔ کہیں یوسف چچا کی یادداشت تو کمزور نہیں ہے کہ وہ تین دن پہلے کے واقعے کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں؟
بہرحال بات کچھ بھی ہو، یہ اچھا ہے کہ اس آدمی سے میری کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
اور اگر اس نے مجھ سے یہ پوچھ لیا کہ کیا میں موٹرسائیکل چلاتا ہوں، یا یہ کہ میں تین دن پہلے فلاں جگہ سے گزر رہا تھا تو میں کیا جواب دوں گا؟"
پھر کھانا لگ گیا۔ شاکر کی میز پہ کھانا لگانے کے لیے یوسف چچا دو لڑکوں کے ساتھ آئے۔ کھانا میز پہ چن دیا گیا تو دونوں لڑکے تو وہاں سے روانہ ہو گئے مگر یوسف چچا شاکر کے برابر میں ہی بیٹھ گئے۔
"کھانا کھاؤ، شاکر بیٹا،" یوسف چچا نے شاکر سے کہا۔ شاکر نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا اور ایک لقمہ توڑ کر منہ میں رکھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ،
"یہ کیا مصیبت ہے کہ یہ آدمی میرے برابر میں ہی بیٹھا ہے۔ کاش یہ یہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔"
پھر اچانک یوسف چچا نے شاکر کے قریب آ کر شاکر سے بولنا شروع کیا۔
"شاکر میاں، آؤ ہم دونوں ایک دوسرے سے ایک وعدہ کریں۔"
یوسف چچا کی یہ بات سن کر شاکر کا منہ چلنا بند ہو گیا۔
"آؤ ہم دونوں ایک دوسرے سے یہ وعدہ کریں کہ پرسوں والے واقعے کو یوں بھول جائیں گے کہ جیسے وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں۔"
شاکر نے منمنا کر، "جی اچھا" کہا۔
اسے اپنے ماتھے پہ پسینے کی ایک لڑی ابھرتی محسوس ہوئی۔