اپنی کلہاڑی اپنے پاؤں
احسان بن مجید
دسمبر کی ٹھٹرتی رات میں نصف شب کے قریب دور ویرانے میں کسی کتے کی لمبی ’’ہو‘‘ سے رات کی خاموشی شق ہو کر پھر جڑ گئی تھی۔ چاند آہستہ آہستہ کھسکتا اتنے بادل کی اوٹ میں چلا گیا تھا۔ جو اس کے انگوٹھے کے پیچھے چھپ سکتا تھا ، اس نے غور سے دیکھا ، چاند نہیں بادل چل رہا تھا۔ وہ اکیلا صحن میں کھڑا تھا ، یخ ہوتی رات میں اسے گرم بستر سے نکل کر صحن میں آنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ایک لمحے کے لئے اس نے سوچا۔ چاند کے آگے پھر بادل آ گیا تھا۔ اسے لگا جیسے صحن میں بہت سارے عفریت رقص کر رہے ہوں۔ ایک خوف سا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔ دور کہیں ریل گاڑی نے وسل بجائی ، اسے لگا جیسے اس کے گھر کے سامنے رکی ہو۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر وقت دیکھنا چاہا لیکن گھڑی تو بیڈ کے ساتھ پڑے سائیڈ ٹیبل پر رکھ آیا تھا۔ صحن چاندنی میں نہا گیا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا ، بادل پتا نہیں کہاں چلا گیا تھا اور اب صحن میں شیشم کے درخت کے ساتھ پڑا جھولا صاف نظر آ رہا تھا۔ اسے لگا جیسے جھولا حرکت کر رہا ہو۔
’’اندر چلو اتنی سردی میں باہر کیوں کھڑے ہو ، تمہیں اپنی صحت کی ذرا پرواہ نہیں ، تمہاری ایسی باتوں سے بچے بھی اب سہمنے لگے ہیں ، ڈرنے لگے ہیں !‘‘ اسے اپنے دائیں بازو پر ایک ہاتھ کے لمس کا احساس ہوا۔ اس نے بازو کو جھٹکا دیا جیسے ان دیکھا ہاتھ ہٹانا چاہتا ہو۔ اس نے اپنی دائیں طرف دیکھا ، کوئی نہیں تھا۔ پھر یہ آواز کہاں سے آئی تھی ، یہ سوچ کر خون سردی اور خوف سے اس کی شریانوں میں جمنے لگا تھا۔ چند لمحوں کے لئے روح جیسے اس کے جسم سے غیر حاضر ہو گئی تھی۔ جاگتی آنکھوں کا خواب ٹوٹا تو وہ کمرے کی طرف مڑا۔ اندر دیوار گھڑی نے ایک گھنٹی بجائی۔ اس کے پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ اندر جا کر کیا کروں گا ، اندر کون بیٹھا ہے جو میری تنہائی بانٹے گا۔ آدھی رات گزر گئی ، باقی آدھی بھی یوں ہی گزر جائے گی۔ لیکن کب تک، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور پھر اس کے اندر سوالات کی نسل بڑھنے لگی۔ کسی سوال کا جواب فوراً اس کے لبوں تک آ جاتا لیکن بہت سارے قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے۔ وہ کس کس کو بہلاتا۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔ تین برسوں کی راتیں، سرد راتیں ان کی آنکھوں سے گزر کر صبح میں ڈھلی تھیں اور اب ان کی آنکھوں میں سوائے برف کے کچھ نہیں تھا۔ جب آنکھیں برف ہوں تو نظر آنے والی ہر چیز پر برف کی تہہ جمی نظر آتی ہے۔ زندگی کی جھیل کا پانی جم کر کانچ بن گیا تھا اور اسی کانچ نے اس کے اندر لا تعداد زخم کر دیے تھے۔ سردیوں کی راتوں میں جب ان زخموں کے بخئیے ادھڑ جاتے تو وہ ان پر کسی تسلی، کسی دلاسے کے مرہم کا لیپ نہیں کرتا ، کوئی پھاہا نہیں رکھتا بلکہ اس کی آنکھیں چہرے کی بجائے دل پر جا لگتیں اور وہ اپنے اندر کے سارے زخم دیکھ لیتا ، اگر کسی زخم پر پپڑی آ رہی ہوتی تو وہ اس سے منسلک یاد کے نشتر سے اس کو پھر سے چھیل دیتا۔ جس طرح کسی مرد کو اپنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھانے کی رسم زندگی کے آخری لمحے تک نہیں بھولتی اسے بھی نہیں بھولی تھی۔ خاندانی رنجشوں پر پاؤں رکھ کر ایک دن اس نے اپنے ماں باپ سے کہہ دیا کہ شادی کرے گا تو ماموں کی بیٹی سے ورنہ نہیں کرے گا۔ ماں باپ کی اکیلی اولاد تھا ، ضد کر بیٹھا ، والدین نے کتنے منتوں ترلوں سے اس کے لئے یہ رشتہ حاصل کیا تھا، یہ وہی جانتے تھے ، اسے تو چکی کے دو پاٹوں سے آٹا چاہئے تھا وہ مل گیا۔ اس کی ساری بے چینی یوں دور ہو گئی جیسے پانی کا بھرا ہوا گلاس الٹا کر دینے سے سارا پانی بہہ جاتا ہے اور گلاس ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ زندگی سے لا ابالی کے لمحے چلتے بنے تھے اور اب اس کی چال میں ایک ٹھہراؤ آ چکا تھا اور قدم ایک ڈھنگ سے اٹھنے لگے تھے۔ خیالات صراط مستقیم پر آ چکے تھے۔ نوکری سرکار کی ہو یا شخصی وہ دونوں پر لعنت بھیجتا تھا۔ کالج میں چار سال پڑھنے کے بعد وہ دو سال فارغ بیٹھا روٹیاں توڑتا رہا۔ بالآخر ایک دن اس نے باپ سے ذاتی کاروبار کرنے کی خواہش کا اظہار کر ہی دیا۔ باپ کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا ، کہا یہ سنبھال لو۔ یعنی باپ کی نوکری کرو اس نے چند لمحوں کی خاموشی میں یہی کچھ سوچا تھا۔ باپ کا فیصلہ اگر چہ غلط نہیں تھا لیکن اس کے سینے میں جانے کون سی آگ تھی جس نے اس کو بھڑکا دیا اور وہ باپ کو ہاں یا نہیں کہے بغیر وہاں سے اٹھ گیا۔ بیوی بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلی گئی۔ وہ چند دن اکھڑا اکھڑا سا رہا۔ کھانے کی میز پر بھی اس وقت جاتا بلکہ بیوی اسے لے جاتی جب سب اٹھ جاتے۔ اس کے بس میں ہوتا تو بیوی کو بازو سے پکڑ کر کہیں نکل جاتا لیکن اب تو وہ یوں بے بس تھا، شادی کے ایک سال بعد پہلا بیٹا ، دوسرے سال دوسرا اور پھر لیڈی ڈاکٹر کی نصیحت پر آرام باش۔ بیوی کا چہرہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں جھپکنا بھول جاتی تھیں لیکن آج کل اس کا رویہ بیوی کے ساتھ بھی ترش ہو چلا تھا۔ رات اس کے لئے اذیت ناک ہوتی تھی۔ رات کے جس سمے بھی اس کے اندر آندھیاں چلنے لگتیں ، وہ خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل کر صحن میں آ جاتا اور زندگی اور زندگی میں آنے والے دنوں کے لیے تانے بانے بنتے گھنٹوں بیت جاتے۔
’’امی ابو کو سردی نہیں لگتی!‘‘ بڑا بیٹا پوچھ لیتا۔
’’ تم سو جاؤ ابھی آ جائیں گے !‘‘ بیٹے سے کہہ کر وہ باہر اس کے پاس جا کھڑی ہوتی۔ ’’ کس مسئلے نے تمہیں پریشان کیا ہوا ہے ، کون سی گتھی تم اکیلے سلجھا نہیں پا رہے ہو۔ لوگ کہتے ہیں دیوار سے بھی مشورہ کر لینا چاہئے۔ میں تمہاری بیوی ہوں ، اندر چلو ، تمہارا یہ رویہ بچوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ‘‘ وہ اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتی۔ اور وہ بوجھل قدم اٹھاتا اسکے ساتھ کمرے میں آ کر بستر پر کروٹ لے کر لیٹ جاتا ، چپ چاپ کسی سوچ سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ، بچے سہم جاتے اور بیوی گھنٹوں گھنٹوں بیٹھی رہتی۔ یوں تو اس کے اندر چھوٹے موٹے پٹاخے چھوٹتے ہی رہتے تھے لیکن جب اس کے اندر کوئی نیپام پھٹتا تو وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ اذیت کی رات بیساکھیاں گھنٹوں پر رکھ کر صحن میں بیٹھ گئی تھی۔ اس کی زندگی میں اتنا نامہربان دوراہا کبھی نہیں آیا تھا ، جس پر وہ آج کھڑا تھا۔ کون سا راستہ اختیار کرے ، یہی سوچ اس کے کلیجے میں سوراخ کر رہی تھی۔ وہ اٹھا ، ہولے ہولے قدم اٹھاتا بیوی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بیٹھی ہوئی تھی ، اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا ، اس نے جھینپ کر پلکوں کی چلمن گرا دی ، آنکھوں کی جھیل پر جیسے شام سی ہو گئی ، اداس شام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میر ی آنکھوں میں دیکھو۔ آج میں تمہاری آنکھوں میں ڈوب کر ابھرنا اور پھر ڈوبنا چاہتا ہوں ، اس نے نظریں اٹھائیں اور وہ ان نظروں کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتا رہا ، چند مسلسل لمحے بیت گئے ، وہ یوں ہی دیکھتا رہا ، وہ تڑپ اٹھی۔ یوں کیوں دیکھ رہے ہو ، آج مجھے تم پر بے تحاشا پیار آ رہا ہے اور تم جانتی ہو پیار جب جب اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے تو اس سے آگے جدائی کے گھمبیر اندھیروں کی ابتدا ہوتی ہے، میرے اندر ایک خوف کی سی کیفیت ہے ، اس کے چہرے پر ایک دم جھڑ چھا گیا۔ وہ پاؤں پر بیٹھ کر بیٹے کے سر میں آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنے لگا اور اپنے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھ کر پدرانہ شفقت منتقل کرتا رہا۔ اس کا چہرہ اپنے باپ پر گیا ہے ، اس نے چھوٹے بیٹے کو یوں دیکھا جیسے گود لیا کسی اور کا بچہ ہو۔ اس نے بیوی کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کی نظروں میں سوالیہ نشان معدوم ہو کر ابھر رہے تھے۔ رات کا ہر لمحہ ککرا بن کر اس کی آنکھ لہو لہان کر رہا تھا۔ بیوی کے ذہن میں کئی خاردار راہداریاں کھل گئیں ، اس نے چھوٹے بیٹے کو اٹھا کر گود میں بھر لیا اور بہت دیر تک اس کے ننھے ننھے ہاتھ اور گال چومتی رہی۔ وہ پرے بیٹھا اس کو دیکھتا رہا اور اپنے اندر طلوع ہونے والی اندھیری صبح کے سورج کو پتھر مار مار کر توڑتا رہا۔ نیند کے لئے اس نے ایک اپنی آنکھوں کے دروازے بند کر دیئے تھے، باہر صحن میں پو پھٹ رہی تھی ، لیکن اس کے اندر تنہائی کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ ایک ہولناکی کا سماں اس کے اندر پھیل رہا تھا۔ اس نے یکدم سر اٹھا کر بیوی کو دیکھا ، وہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔ نظریں چار ہوئی تو بیوی کی نگاہیں یوں گر گئیں جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ تب اس نے سوچا نظروں کی قوت اور کمزوری سچ اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ زندگی بھر کی تنہائی نہایت سرعت سے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مشرق سے کائنات کو روشن کرنے والا سورج ابھر آیا تھا اور دھوپ کی تمازت کھڑکیوں کے پردوں سے چھن کر آتے ہوئے کمرے میں زندگی کے آثار کی نشاندہی کر رہی تھی۔ یہ کیسی زندگی ہے ، یہ سوچنا سورج کا کام نہیں۔ اس نے چھوٹے بیٹے کو گود سے بستر پر منتقل کیا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی ، ناشتہ تیار کر کے میز پر لگایا ، اس نے اس گھر میں یہی معمول دیکھا اور اپنایا تھا۔ اس کے قدم ساس اور سسر کے کمرے کی طرف اٹھ گئے لیکن اسے اپنے عقب میں ایک سائے کا احساس ہوا ، اس نے گردن گھما کر دیکھا ، وہ کھڑا اسے گھور رہا تھا ، ایک لمحے کے لئے وہ رکی ، اس کی آنکھوں سے نکلتی تپش کو محسوس کیا اور آگے چل دی۔ دو قدم کے فاصلے پر تھی کہ ساس اور سسر کمرے سے باہر نکل آئے۔ ’’ہم آ رہے ہیں بیٹے چلو ‘‘ دونوں یک زبان ہوئے ، وہ ان کے ساتھ واپس مڑی تو وہ واش روم میں جا چکا تھا۔ ’’تمہارے صاحب ابھی نہیں آئے!‘‘ سسر نے کرسی میز کے قریب کھینچتے ہوئے اسے دیکھا۔
’’ابھی آ جائیں گے !‘‘ یہ وہ آواز نہیں تھی جو دو پیمانوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی تھی بلکہ یہ تو کسی ویران کنوئیں سے آنے والی آواز تھی۔
قدموں کی چاپ ابھری اور وہ شب خوابی کے لباس میں ہی ناشتے کی میز تک پہنچ کر کھڑا ہو گیا۔ تھکا تھکا سا بدن، اجڑا اجڑا سا چہرہ ، شب بیداری سے سرخ آنکھیں سب کو دیکھتی ہوئی جیسے آخری بار دیکھ رہی ہوں۔
کانپتے لبوں کے پیچھے جیسے ہزار ہا باتیں ابل پڑنے کو تیار ہوں۔
’’بیٹھو بھئی ناشتہ کرو !‘‘ باپ نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’تم اپنے دونوں بیٹوں کو لے آؤ!‘‘ وہ باپ کی بات ان سنی کرتے ہوئے بیوی سے مخاطب ہوا۔
وہ بڑے بیٹے کو انگلی سے پکڑے اور چھوٹے کو بغل میں اٹھائے آ گئی۔
’’ ڈیڈی آپ یہ دونوں بچے دیکھ رہے ہیں ، بڑے میں مجھے اپنا سراپا دکھائی دیتا ہے لیکن چھوٹے میں مجھے اپنا عکس دکھائی نہیں دیتا ، یہ بچہ ایک ایسی دستاویز ہے جو آپ کے مالکانہ حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور میں اس میں بطور گواہ شامل ہوں۔ میں آپ کے حق میں دستبردار ہوتے ہوئے اسے آزاد کرتا ہوں ‘‘ اور پھر اسی لمحے ایک دو تین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں باپ کے چہرے پر جیسے کسی نے ہلدی لیپ دی۔
’’تم میرے بیٹے ہو لیکن انتہائی گھٹیا انسان ہو ، میرا جی چاہتا ہے تمہیں گولی مار دوں ، یہ پہلے بھی میری بیٹی تھی اب بھی میری بیٹی ہے ، ضروری نہیں ہوتا ہر بچے کا چہرہ اپنے باپ پر ہو ، دادا پر بھی ہو سکتا ہے ، نانا پھر بھی ہو سکتا ہے ، دادی اور نانی پر بھی ، یہ تو خالق پر منحصر ہے۔ ‘‘ اس چار دیواری میں ایک سیاہ صبح کا آغاز ہوا تھا۔ وہ بچوں کو لے کر صدر دروازے کے طرف چل پڑی اور وہ اس کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ اسے روک نہیں سکا۔ روکتا بھی کیسے ، کس رشتے سے کہ اب تو ان کے درمیان آسمان تک دیوار کھڑی ہو چکی تھی۔
’’رک جاؤ بیٹی !‘‘ سسر نے اسے پکارا۔
’’نہیں ڈیڈی ! اب یہ گھر میرا نہیں رہا نہ اس گھر کے مکین !‘‘ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو آنکھوں کے کٹورے اشکوں سے لبالب بھرے تھے۔
’’بیٹی میری ایک بات سنتی جاؤ پھر میں تمہیں نہیں روکوں گا !‘‘ وہ اٹھا ، کمرے میں گیا ، میز کی دراز کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی وہ کمرے سے باہر آیا تو اس کے دونوں ہاتھ پیچھے تھے۔
’’ تمہاری پارسائی اور میری بے گناہی کا اس سے بہتر کوئی ثبوت نہیں۔ ‘‘ اس نے یکدم بائیں ہاتھ میں پکڑے ریوالور کی نال اپنی کنپٹی پر رکھ کر ٹریگر دبا دیا ، وہ گرا اور چند لمحے تڑپنے کے بعد ٹھنڈا ہو گیا۔ ماں دہ ماہ سکتے کے عالم میں رہنے کے بعد خاموشی سے قبر میں اتر گئی۔ اس کے حلق سے ایک چیخ نکلی اور وہ بچوں کو لے کر دوڑتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل کر جانے کہاں گئی۔
آج وہ اسی باپ کے کاروبار کا کروڑ پتی مالک ہے لیکن تنہائی اور بیوی بچوں کی جدائی کا کرب اسے ہر شب ستاتا ہے مگر اب وہ یہ سوچتا ہے کہ اس نے اپنی کلہاڑی اپنے پاؤں پر چلا دی۔
کمرے کی دیوار گھڑی نے تین گھنٹیاں بجائیں۔ رات قریب الصبح ہے ، اس نے سوچا اور پھر برآمدے سے صحن میں نکل گیا۔ بادل اب بھی چاند سے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔
٭٭٭