بارھیں برسیں
منشا یاد
بارہ برس بعد۔۔۔۔
ایک روز میں اس کے گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہوں تو وہ اندر سے چہک کر کہتی ہے۔
’’دروازہ کھلا ہے ڈرائنگ روم میں چلے جائیے۔‘‘
میں دروازہ ٹٹولتا ہوں واقعی ڈرائنگ روم کا دروازہ اندر سے بند نہیں ہے۔ میں دروازہ کھول کر اندر آ جاتا ہوں تپائی پر چائے کے برتن رکھے ہیں۔ چائے دانی سے ہلکی ہلکی بھاپ اٹھ رہی ہے۔ پلیٹوں میں مختلف قسم کے پھل اور کھانے کی چیزیں قرینے سجی ہوئی ہیں۔ میں گردن گھما کر دیکھتا ہوں۔ قدموں کی چاپ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ساتھ والے کمرے کے دروازے پر آ گئی ہے۔ درمیان میں ہلکے گلابی رنگ کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔ اس کی آواز سن سکتا ہوں وہ کہہ رہی ہے۔
’’مجھے معلوم تھا تم آنے والے ہو۔ مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ تم تیسرے خواب والے وعدے پر بارہ برس بعد ہی عمل کرو گے۔ تم نے مجھے بارہ برس تک راہ دکھائی ہے۔ اب بارہ برس تک تمہیں اکیلے بیٹھ کر چائے پینا ہو گی اور تیرھویں برس کا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘
میں چائے کی دو پیالیاں بنا کر رکھ دیتا ہوں اور کہتا ہوں۔
’’جب تک تم میرے پاس نہیں بیٹھو گی میں چائے نہیں پیوؤں گا تم نے کم از کم ایک پیالی چائے میرے ساتھ بیٹھ کر پینے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘
وہ کہتی ہے ’’جب تم اپنے وعدے پر پورے نہیں اترے تو میں بھی اس کی پابند نہیں ہوں تم نے بارہ برس تک مجھے انتظار کی آگ میں جلاتا ہے۔ اب تمہیں بارہ برس تک انتظار کرنا ہو گا۔‘‘
اور تم؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
’’میں ‘‘ ’’وہ کہتی ہے‘‘ تم سے باتیں کروں گی۔ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنا ہیں۔ اور پھر اس طرح تمہارے انتظار کے بارہ برس آسانی سے کٹ جائیں گے۔
میری آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں لیکن گرنے سے پہلے جم جاتے ہیں۔ میں انہیں خالی پلیٹ میں چن دیتا ہوں وہ بولتی رہتی ہے۔
’’جب تم گھر سے چلے تھے تمہارا یہاں آنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن میں جانتی تھی اب تمہیں آنا ہی پڑے گا۔ تم کہیں اور نہیں جا سکتے۔ تمہیں شائد معلوم نہ ہو۔ میں سب کچھ جانتی ہوں۔مجھے ہر بات کا پتہ چل جاتا ہے۔ یہ بات میں نے تمہیں پہلے خواب میں بھی بتائی تھی۔‘‘
’’پہلا خواب؟ نہیں۔۔۔۔ وہ تو شائد دوسرا خواب تھا‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔
’’نہیں وہ پہلا خواب تھا‘‘ وہ کہتی ہے۔ ’’مجھے تو ذرا ذرا سی بات یاد ہے۔میں نے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ نہ مجھے کسی نے دیکھا تھا اسی لئے جب ہر صبح مجھے پانچ پھولوں سے تولا جاتا۔ تو میرا وزن کبھی کم یا زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ سارا شہر میرے بدن کی روشنی سے منور تھا۔ لوگ راتوں کو گھروں میں چراغ نہیں جلاتے تھے جلا نہیں سکتے تھے۔ مگر میرا دل اداس رہتا تھا۔ مجھے پھولوں سے وحشت ہوتی تھی۔ اور میں پہروں چپ چاپ بیٹھی سوچوں میں کھوئی رہتی تھی اور پتہ ہے تم۔۔۔۔‘‘
میں اس کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں۔۔۔۔ ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔ تین برس گزر جاتے ہیں۔ میں اس کی باتوں سے اکتا جاتا ہوں۔ اسے پردے کے پیچھے کھڑے باتیں کرتے چھوڑ کر میں تھوڑی دیر کے لئے باہر نکل جاتا ہوں اور وہ۔۔۔۔ جو سب کچھ جانتی ہے، نہیں جان سکتی کہ میں وہاں نہیں ہوں۔
میں گلی سے نکل کر سڑک پر آتا ہوں۔ سڑک پہلے سے زیادہ چوڑی کر دی گئی ہے۔ لیکن ٹریفک کے تناسب سے اب بھی نا کافی ہے۔ فٹ پاتھ پر کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ ہر طرف شور و غل ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ میں چوک پر پہنچ کر تازہ اخبار خریدتا ہوں اس میں میرے لئے بہت سی خبریں دلچسپ نئی اور عجیب ہیں۔ نئے نئے ناموں کے وزیر، نئے منصوبے، ایک نیا ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا ہے۔ ملک میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ میں اخبار پڑھتا اور لوگوں سے ٹکراتا جاتا ہوں۔ کہ اچانک میری نظر اپنی تصویر پر پڑتی ہے۔ میرے چچا نے ان تمام احباب اور رشتہ داروں کا بذریعہ اخبار شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے میری بے وقت موت پر انہیں تعزیتی پیغامات اور تار بھیجے ہیں۔ اور جنہیں فرداً فرداً جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اپنی بے وقت موت کی خبر پڑھ کر میرا جی بھر آتا ہے۔ اور میں دیر تک آنسو بہاتا رہتا ہوں پھر مجھے اپنے چچا کا غم سے نڈھال چہرہ یاد آتا ہے میں اخبار سے آنسو خشک کر کے جلدی جلدی گئی ہیں۔ میں انہیں تسلی دیتا ہوں۔ جائیداد فروخت کر کے فیکٹری یا کارخانہ لگانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اپنی نگرانی میں اپنی قبر کو پختہ کراتا ہوں۔ اور اس پر کتبہ لگواتا ہوں۔
جب میں لوٹتا ہوں تو وہ دوسرے خواب کا حال بیان کر رہی ہوتی ہے۔ چائے ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ میں چپ چاپ آ کر صوفے میں بیٹھ جاتا ہوں کبھی کبھی دروازے کے ادھ کھلے پٹ سے ہوا کا نازک سا جھونکا اندر آتا ہے تو میری نظریں اسے ہلکے گلابی رنگ کے پردے تک چھوڑنے جاتی ہیں۔ وہ مجھے نظر نہیں آتی لیکن اس کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے۔
’’اگرچہ میں وہاں کبھی نہ جا سکی لیکن تمہارے جسم کی خوشبو مجھ تک ہر لمحہ پہنچتی تھی۔ میں ہر شام محل کی چھت پر کھڑے ہو کر ہوا میں تمہارے جسم کی خوشبو محسوس کرتی اور سمت کا تعین کرتی تھی۔ پھر جس روز تم کنویں کی قید سے رہا ہوئے اس روز صبح سے میری بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی۔ اور خوشبو کی کثرت سے مجھے سانس لینا دو بھر ہو گیا تھا۔ اور مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ اب تم تیسرے خواب کر سفر پر روانہ ہو گے۔ مجھے اس کی باتیں سنتے سنتے تین برس اور بیت گئے ہیں۔ میں اس کی باتوں سے اکتا جاتا ہوں۔ اور چھٹے برس اس سے آنکھ بچا کر باہر نکل جاتا ہوں اور وہ جو سب کچھ جان لیتی ہے۔ نہیں جان سکتی کہ میں وہاں نہیں ہوں۔
گلی کے نکڑ پر مجھے ایک نہایت حسین عورت دکھائی دیتی ہے اسے دیکھ کر میں ٹھٹھک جاتا ہوں۔ پھر س کے اشاروں پر ناچنے لگتا ہوں۔ جب ناچتے ناچتے تھک جاتا ہوں وہ مجھے اپنے گھر لے جاتی ہے میں اس کے پیچھے پیچھے اس کے گھر میں داخل ہوتا ہوں دروازہ اپنے اپ کھٹاک سے بند ہو جاتا ہے۔ میں دوسرے ہی لمحے ایک ایسے گڑھے میں گر جاتا ہوں جس میں لوہے کی بڑی بڑی نوکیلی سلاخیں عموداً گڑی ہوئی ہیں۔ جس میں جسم سے خون کے فوارے نکلنے لگتے ہیں خوبصورت عورت چہرے سے خوبصورتی کا ماسک اتارتی ہے۔ اس کے لمبے لمبے دانت اور مکروہ صورت دیکھ کر میں بے ہوش ہو جاتا ہوں۔ جب مجھے ہوش آتا ہے۔ تو میری ہڈیاں ننگی ہوتی ہیں انسانی گوشت کے جلنے کی بو چاروں طرف پھیلی ہوتی ہے۔قریب ہی میری کھال رکھی ہوتی جس میں جا بجا سوراخ ہیں میں اپنی کھال اٹھا کر اوڑھ لیتا ہوں۔ اور بھاگتا ہوا واپس آ جاتا ہوں۔
اسے بالکل پتہ نہیں چلتا۔ وہ اپنے تیسرے خواب کی تفصیل سنا رہی ہے۔ میں چائے کی پیالیاں ٹٹولتا ہوں۔ چائے ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی وہ کہتی ہے۔
’’پاداش میں میرے بدن کا نور جاتا رہا۔ اور میں پھولوں کی بجائے پونڈوں سیروں میں تلنے لگی۔ پھر بھی میں خوش تھی۔ میرا اندر آباد تھا مجھے تنہائی اور ویرانی سے نجات ملی تھی۔ اور شائد میں ہمیشہ خوش ور مطمئن رہتی۔ اگر مجھے تمہارے بارے میں پتہ نہ ہوتا کہ تم کہاں ہو۔ اور کیا کرتے ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ تم بارہ برس کی قید با مشقت کاٹ رہے تھے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں تمہیں بارہ برس کا بن بار ملا تھا۔ اور کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ تم کسی اندھے کنویں میں الٹے لٹک کر بارہ برس سے چلہ کشی کر رہے ہو۔ لیکن میں جانتی تھی مجھے سب کچھ معلوم تھا کہ تم کس طرح دن رات دولت جمع کرنے میں مصروف ہو کاش تم مجھ سے پوچھ لیتے کاش آخری خواب میں میں نے تمہیں بتا دیا ہوتا کہ وہ دولت تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔
میں اس کی باتیں سنتا ہوں یہاں تک کہ تین سال اور بیت جاتے ہیں نویں سال میں اکتا کر باہر نکل جاتا ہوں۔ اور وہ جو سب کچھ جان لیتی ہے۔ نہیں جان سکتی کہ میں وہاں نہیں ہوں۔
گلی سنسان پڑی ہے۔
کسی گھر سے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے۔ نہ کسی کھڑکی سے کوئی عورت جھانکتی ہے ساری گلی ویران اور خاموش ہے۔ میں سڑک پر آتا ہوں۔ سڑک پر کہیں بھی کوئی نہیں ہے۔ آدمی نہ حیوان نہ پرند۔۔۔۔ ہر طرف مکمل خاموشی ہے۔ موت کا سا سناٹا ہے۔ ہو کا عالم ہے۔ دکانیں کھلی ہیں مگر دکاندار اور خریدار نہیں ہیں۔ ٹانگے اور ریڑھے سڑک کے ایک طرف یا درمیان میں کھڑے ہیں مگر ان میں کوئی سواری ہے نہ کوئی جانور جُتا ہوا ہے۔ مٹھائی کی دکان سجی ہوئی ہے مگر ایک مکھی نہیں ہے۔ کوئی پرندہ پھڑپھڑاتا نہیں آتا۔ کوئی ذی روح بولتا سنائی نہیں دیتا۔ کاش کہیں کوئی کتا ہی بھونکتا سنائی دے۔ میں خوف سے کانپنے لگتا ہوں اور اس قدر گہرے سکوت سے مجھے ہول آنے لگتا ہے میں بھاگ کر ریڈیو کی ایک بڑی دکان میں گھس جاتا ہوں۔ اور باری باری ہر چھوٹے بڑے ریڈیو کی سوئی گھماتا ہوں۔ کسی بینڈ پر کوئی اسٹیشن سنائی نہیں دیتا۔ خوف کے مارے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ اسی لمحے میری نظر قریب پڑے ٹیپ ریکارڈر پر پڑتی ہے۔ میری ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ میں ٹیپ ریکارڈر سے انسانی آوازیں سن کر اپنا حوصلہ بڑھاتا ہوں۔
پھر اچانک اس احساس سے کہ ان سب چیزوں کا میں تنہا مالک ہوں اور دکانوں مکانوں گلیوں کو چوں بازاروں پر میں اکیلا قابض ہوں اور وہ سب کسی انجانے خوف کی وجہ سے شہروں کے شہر میرے لئے خالی کر کے بھاگ گئے ہیں میں خوشی اور مسرت کے جذبات سے سرشار ہو جاتا ہوں۔ لیکن یہ خدشہ کہ کہیں کوئی اور بھی میری طرح موجود نہ وہ۔ مجھے اچانک فکر مند کر دیتا ہے میں اسلحہ کی دکان سے بندوق اور گولیاں لے کر اس کی تلاش میں نکلتا ہوں جس کے موجود ہونے کا امکان ہے میں میں اسے پہلے آہستہ آہستہ بلاتا ہوں پھر بلند آواز مین پکارتا گالیاں دیتا اور للکارتا ہوں۔ بز دلی کے طعنے دیتا ہوں۔ لیکن وہ سامنے نہیں آتا میں اس کی تلاش میں شہر کا چپہ چپہ چھانتا ہوں لیکن وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ جب مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کہیں نہیں ہے۔ تو میں ہوائی فائرنگ کر کے اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔
اچانک مجھے اس کا خیال آتا ہے۔ میں بھاگتا ہوا واپس آتا ہوں۔ تاکہ اسے خوشخبری سنا سکوں۔ کہ اب دنیا میں صرف میں اور وہ باقی ہیں۔ اور پوری دنیا پر ہماری آنے والی نسلوں کی حکمرانی ہو گی۔
میں چپکے سے آ کر صوفے میں دھنس جاتا ہوں۔ وہ کہتی ہے۔
’’مجھے سب پتہ ہے تم نے باہر جا کر جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سوچا ہے مجھے اس کا بھی علم ہے۔ اور جانتے ہو مجھے یہ بھی معلوم کہ میری باتوں کے دوران میں تم ہر تین سال بعد چپکے سے اٹھ کر باہر چلے جاتے رہے ہو۔ تم میری باتیں سن سن کر اکتا جاتے ہو۔ اس لئے اب میں میں کچھ نہیں بولوں گی۔ ابھی تین برس باقی ہیں یہ بٹن برس تمہیں تنہائی اور خاموشی سے اکیلے بیٹھ کر گزارنا ہونگے۔
وہ خاموش ہو جاتی ہے۔ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے ہیں۔ جو گرنے سے پہلے جم جاتے ہیں۔ میں انہیں اٹھا کر پلیٹ میں چن دیتا ہوں۔ ایک دو تین برس گزر جاتے ہیں۔
تیرھواں برس شروع ہوتا ہے۔ میں اسے پکارتا ہوں۔ چائے ابھی تک گرم ہے میں پردے کی طرف دیکھتا ہوں لیکن وہ سامنے نہیں آتی۔ جواب بھی نہیں دیتی۔ میں اٹھ کر پردہ ہٹاتا ہوں وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
اسی لمحے انسانی آوازوں کا شور سنائی دیتا ہے۔ شائد شہر سے بھاگے ہوئے لوگ اپنے گھروں میں و اپس آ رہے ہیں۔
٭٭٭