دھُوپ، دھُوپ، دھُوپ
منشا یاد
ایک رات اس کا باپ دیر تک گھر نہ لوٹا۔ مگر پھر بستی کے سب سے اونچے مکان کی چھت سے اس کی آواز سنائی دی وہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔
’’لوگو۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بستی وقت سے پیچھے نہ رہ جائے تو انصاف قائم کرو۔۔۔۔ انصاف ہی نیکی اور راست بازی ہے اور تم ظلم اور نا انصافی کرنے والے ہاتھوں کو پہچانو اور انہیں ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہ دو ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں سے ہو گا۔‘‘
اس کا باپ گھر لوٹا اور اطمینان سے سو گیا۔
خلافِ معمول ہوا چل رہی تھی اسے بھی نیند آ گئی اور جب اس کی آنکھ کھلی صبح کاذب کا وقت تھا۔۔۔۔۔ ہوا بند تھی اور اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے کروٹ بدلی اور ساتھ والی چارپائی کی طرف دیکھا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اس کے باپ کا سراس کی گردن سے الگ پڑا ہوا تھا۔
وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں مگر کسی نے اس کے گھر میں جھانک کر نہ دیکھا۔ اس نے بقایا رات روتے اور بین کرتے گزاری۔
اس کا خیال تھا کہ آج صبح نہیں ہو گی مگر وہ حیران ہوا۔ مرغ نے اسی طرح اذان دی جیسے ہر روز دیتا تھا اسی طرح پو پھٹی اور صبح ہوئی اور ہر روز کی طرح چڑیاں چہچہائیں، کوے منڈیروں پر آ بیٹھے اور مشرقی افق پر شفق نمودار ہوئی۔
اس کا خیال تھا کہ آج اسے بھوک نہیں ستائے گی اور پیاس نہیں لگے گی مگر اسے دہی کتا بھوک لگی اور پیاس نے ستایا۔ اس نے روٹی کے ٹکڑے کے لئے پاؤں چاٹتے کتے کو بار بار دھتکارا مگر وہ تھوڑی دور جا کر پلٹ آتا اور دم ہلانے اور پاؤں چاٹنے لگتا۔
اس کا خیال تھا کہ وہ دن عام دنوں جیسا نہیں تھا مگر اسے سب کچھ معمول کے مطابق نظر آیا سوائے اس کے کہ جب دھوپ نکلی تو وہ غیر معمولی تیز اور سرخ تھی اتنی سرخ کہ ساری چیزیں لہو لہان معلوم ہوتی تھیں اس نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان پر سرخ رنگ کی چمکیلی دھند چھائی ہوئی تھی اور سورج کسی خونخوار درندے کی طرح جبڑوں سے لگا خون چاٹتا چھسٹتا چلا آتا تھا۔
اس کا اندازہ تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ جوق در جوق اس سے تعزیت کرنے آئیں گے۔ اس کے باپ کی بے وقت اور درد ناک موت پر اظہار افسوس کریں گے اور اسے صبر کرنے کی تلقین کریں گے۔ مگر وہ یہ جان کر حیران ہوا کہ کسی نے بھول کر بھی اس کی خبر نہ ملی۔
اس کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ وہ گذشتہ رات کے انتباہ کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھے سہے ہوئے بیٹھے رہیں گے اور اس وقت تک انہیں کوئی آہٹ نہیں چونکا سکے گی جب تک انہیں انصاف اور نیکی کا یقین نہ دلا دیا جائے مگر جب منشیوں، فورمینوں اور ٹائم کیپروں نے حاضر یوں کے رجسٹر کھولے اور ان کے نام پکارے تو ہر طرف سے حاضر جناب کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور اسے محسوس ہوا کہ وہ بستی میں اکیلا رہ گیا ہے۔
وہ بے حد پریشان ہوا وہ اکیلا کیا کرے کفن دفن کا انتظام کیسے کرے کسی کا میت کے پاس رہنا ضروری تھا اور ابھی بہت سے کام تھے قبر کھدوانی تھی کفن خریدنا اور سلانا تھا۔ میت کو غسل دینا اور جنازہ پڑھنا تھا اور جنازہ اٹھانے کے لئے کم از کم چار آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر وہ سب کام پر چلے گئے تھے پوری بستی مردوں سے خالی پڑی تھی اور عورتیں اور بچے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سہ پہر تک ان کی واپسی کا انتظار کرے اس کے سینے میں جتنی آہیں اور آنکھوں میں جتنے آنسو تھے وہ نچھاور کر چکے تھا اور اب خالی ذہن لئے میت کے پاس بیٹھا تھا، بیٹھے اچانک اسے خیال آیا کہ اگر وہ واپسی پر بھی اس کی مدد کو نہ آئے تو؟۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ وہ بھی کام پر چلا جائے پوری دیہاڑی میت کے پاس بیٹھ کر ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ اور اب تو اسے پیسوں کی اور بھی زیادہ ضرورت تھی۔ اس طرح واپسی پر وہ کچھ لوگوں کو ساتھ لیتا آئے گا اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کفن دفن کا انتظام ہو جائے گا۔
جونہی اس نے کام کے بارے میں سوچا منشی کی آواز اسے گھر بیٹھے سنائی دینے لگی اور کوئی اس کے اندر حاضر جناب۔ حاضر جناب پکارنے لگا۔
اسے پتہ ہی نہ چلا کب اس نے مرے ہوئے باپ کی چارپائی گھسیٹ کر اندر کی، کب جوتا پہنا اور کب کام پر حاضر ہو گیا۔
منشی نے اسے دیکھتے ہی قہقہہ لگایا پھر ڈانٹ پلائی اور بولا
’’آج پھر ماتم ہو گیا؟‘‘
’’ہاں جی‘‘
’’یقیناً آج پھر تمہارا باپ قتل ہو گیا ہو گا‘‘
’’ہاں جی‘‘
’’رات اس نے پھروہی کیا ہو گا؟‘‘
’’ہاں جی‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔۔ قاتل کا کچھ پتہ چلا؟‘‘
’’نہیں جی‘‘
’’تمہیں کسی پر شک ہے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اس نے خود ہی اپنے آپ کو قتل کر دیا۔‘‘
’’بیوقوف‘‘ منشی نے ہنستے ہوئے کہا ’’اسے خودکشی کہتے ہیں ‘‘
’’خود کشی نہیں جی۔۔۔۔ قتل‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔۔۔ قتل ہی سہی۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ کہ آج بھی اسے دفن کر کے آئے ہو یا نہیں ؟‘‘
’’نہیں جی‘‘
’’چلو شام کو دفنا لینا۔۔۔۔۔ تم اچھا کرتے ہو دیہاڑی ضائع نہیں کرتے میں تمہاری حاضری لگا دیتا ہوں مگر پھر لیٹ نہ آنا آئندہ محتاط رہنا‘‘
’’جی میرا ایک ہی باپ تھا‘‘
’’بیوقوف‘‘ منشی کو بے طرح ہنسی آ گئی کہنے لگا ’’باپ تو ایک ہی ہوتا ہے‘‘ پھر ہنسی روک کر بولا لیکن نہیں۔۔۔۔۔ شاید تم ٹھیک کہتے ہو ایک سے زیادہ باپ بھی ہو سکتے ہیں اچھا تم کام کرو لیکن یاد رکھو تمہیں چھٹی کے بعد کام کر کے لیٹ آئے کی کمی پوری کرنا ہو گی‘‘
’’اچھا جی‘‘
کام کرتے کرتے ہر روز کی طرح دوپہر ہو گئی لو چلنے لگی اور آسمان سے آگ سی برسنے لگی اس نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان اب بھی سرخ تھا اور دھوپ غیر معمولی تیز تھی راج مچان پر بیٹھے اینٹوں سے چنائی کر رہے تھے وہ مچان پر کھڑے اپنے ساتھی کی طرف اینٹیں پھینکنے لگا جو انہیں پکڑ پکڑ کر مچان پر راجوں کے استعمال کے لئے جمع کرتا جاتا۔ دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی اور وہ تازہ دم تھا اینٹیں پکڑنے کے لئے ایک کی بجائے دو آدمیوں کو مچان پر کھڑے ہونا پڑا۔
سورج اب عین سر پر آ گیا تھا سر پر آ گیا تھا اب کھانے کی چھٹی ہو جانی چاہئے تھی مگر ٹھیکیدار کے منشیوں نے شاید آج بھی اپنی گھڑیاں وقت سے پیچھے کی ہوئی تھیں آج بھی بارہ بجنے کے باوجود بارہ نہیں بج رہے تھے دوپہر ہو گئی تھی مگر اس کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگا کتنی دلچسپ بات ہے کہ اعلان نہ ہو تو خواہ سورج سر پر آ جائے دوپہر نہیں ہو سکتی اور گھڑیاں پیچھے کر لی جائیں تو وقت رک جاتا ہے۔ اسے اپنے باپ کی باتیں بے معنی معلوم ہونے لگیں۔
’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بستی وقت سے پیچھے نہ رہ جائے تو انصاف قائم کرو‘‘
پھر اسے یاد آیا کہ دیہاڑی پوری کرنے کے بعد اسے گھر پہنچنا اور کفن دفن کا انتظام کرنا ہے اس کے باپ کی اکیلی میت گھر میں پڑی ہے اسے افسوس ہونے لگا اسے باپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں آنا چاہئے تھا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے اس نے خود ہی سوچا۔۔۔۔۔ آدمی زیادہ سے زیادہ مر سکتا یا قتل ہو سکتا ہے اس کے بعد کوئی اس کا کیا بگاڑی سکتا ہے؟
اور شاید ابھی وقفے کا اعلان نہ ہوتا اگر اینٹیں ختم نہ ہو جائیں اس نے روٹی کی خوشبو سونگھ کر پاؤں چاٹنے والے کتے کو ایک بار پھر دھتکارا مگر وہ دم ہلانے اور اس کے پاؤں چاٹنے لگا اسے دل ہی دل میں ندامت ہو رہی تھی کہ اسے آج بھی بھوک لگی ہے آج۔۔۔۔۔۔جب اس کا باپ قتل ہو گیا ہے اور ابھی اس کی لاش بے گور و کفن گھر میں پڑی ہے۔ اس نے دوسروں سے نظر بچا کر قریبی کنٹین پر کھانا کھایا کھانا ختم ہو گیا تھا مگر اس کی بھوک آج بھی ختم نہ ہوئی تھی اس نے ہر روز کی طرح پانی سے کھانے کی کمی پوری کی اور قریبی سائٹ آفس کی بیرونی دیوار کے ساتھ لگ کر دوپہر ڈھلنے اور وسل بجنے کا انتظار کرنے لگا۔ سایہ اب سمٹتے سمٹتے دیوار کے ساتھ آ لگا تھا اس نے ٹانگیں اور سمیٹ لیں مگر تھوڑی ہی دیر میں دھوپ اور پھیل گئی اب دھوپ اور دیوار کے درمیان اس کے لئے گنجائش نہیں تھی وہ کہیں سایہ تلاش کرنا چاہتا تھا مگر اسی لمحے اینٹوں سے بھرے ہوئے بہت سے ٹرکوں کا شور سنائی دیا اور ساتھ ہی وقفہ ختم ہونے کی وسل سنائی دی شاید انہوں نے اپنی گھڑیاں آگے کر لی تھیں یا وہ خود بخود وقت سے آگے نکل گئی تھیں۔
دوبارہ کام پر آتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان دھوپ سے بھرا ہوا تھا سورج کسی آتش فشاں کی طرح مسلسل آگ اگل رہا تھا اور شکر دوپہر سروں پر تنی ہوئی تھی لو کے تھپیڑے اپنی پیاسی زبانوں سے حسن اور ہر یالی چاٹ رہے تھے اور ہر طرف دھوپ کے لہرئیے سانپوں کی بارش ہو رہی تھی۔ وہ سب بے سایہ دیواروں کی اوٹ سے نکل کر کام پر واپس آ گئے تھے سب کہ چہرے جھلسے ہوئے اور جسم نڈھال تھے۔ روٹی کھانے اور پانی پینے کے باوجود تازگی کا کوئی پھول ان کے چہروں پر نہیں کھلا تھا اسے ان پر ترس آنے لگا۔ روٹی کھانے اور پانی پینے کے بعد وہ خود تازہ دم ہو گیا تھا حالانکہ آج اس کا باپ قتل ہو گیا تھا اور اسے اس کی بے وقت اور درد ناک موت کا صدمہ تھا۔
دیوار اب پہلے کی نسبت بلند ہو گئی تھی مگر اس کی اوپر پھینکی ہوئی اینٹیں پکڑنے اور انہیں راجوں کے قریب رکھنے کے لئے اب بھی دو آدمی مچان پر کھڑے تھے۔ مسلسل اینٹیں پھینکتے پھینکتے اس کے بازو شل ہو گئے اور کمر دکھنے لگی تو مچان سے ایک آدمی نیچے اتر آیا اور میٹ کے کہنے پر کدال لے کر مٹی کھودنے لگا۔
کام کرتے کرتے اس نے وقت کا اندازہ لگانے کے لئے قدموں میں سائے کو تلاش کرنا چاہا تو وہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سایہ کہیں نہیں تھا اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اوپر دیکھا اور اس کا دل دھک سے رہ گیا اتنی دیر بعد بھی سورج کی ٹکیا ایک ہی جگہ پر عین سر کے اوپر ٹھہری ہوئی تھی اور ڈھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی شاید اسکا باپ ٹھیک ہی کہتا تھا اس نے سوچا وقت رک گیا تھا مگر کیوں ؟
اب وہ بہت تھک گیا تھا اور دیوار کے ساتھ ساتھ مچان بھی اور اونچی ہو گئی تھی وہ اینٹ اٹھا کر مچان کی طرف پھینکتا تو وہ واپس آ جاتی اور اسے اپنا سر بچانا مشکل ہو جاتا مچان پر کھڑے ہوئے آدمی کا قہقہہ سنائی دیتا اور وہ دوسری اینٹ پھینکنے کے لئے پورا زور لگاتا۔
دوپہر ڈھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی مگر منشیوں نے سب کو پوری یا نصف دیہاڑی کی اجرت دے کر رخصت کر دیا تھا اب وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ وہ صبح دیر سے کام پر آیا تھا اور ابھی تو اس کی نصف دیہاڑی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی اسے مٹی کھودنے پر لگا دیا گیا۔
کام کرتے کرتے اس نے ادھر ادھر نگاہ ڈالی اور حیران ہوا۔ مسلسل دھوپ اور شدید گرمی کی وجہ سے درختوں کے پتے جھڑ گئے تھے اور وہ بے سایہ ہو گئے تھے چلچلاتی دھوپ دیواریں پھاند کر سائٹ آفس، سٹور اور زیر تعمیر عمارت کے اندر گھسنے لگی تھی۔ اسے اپنے باپ کی میت کا خیال آیا وہ آتی بار اس کی چار پائی گھسیٹ کر اندر کر آیا تھا لیکن کیا پتہ اس نے سوچا دھوپ برآمدے کی راہ کمرے میں گھس گئی ہو۔ مگر اسے کم از کم اپنی نصف دیہاڑی ضرور مکمل کر لینی چاہئے اسے پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔جب وہ کام کرتے کرتے نڈھال ہو گیا اور اس پر غشی کے دورے پڑنے لگے تو منشی نے اسے آدمی دیہاڑی دے کر گھر جانے کی اجازت دے دی۔
وہ بستی میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا بچے، جوان اور جوان بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کے بال دھوپ میں سفید ہو گئے تھے۔ گھروں کے اندر دھوپ گھس آئی تھی اور وہ گھبرا کر باہر آ گئے تھے مگر کہیں سایہ نہیں تھا شاید بستی وقت سے پیچھے رہ گئی تھی۔
وہ لوگوں کو مدد کے لئے بلانے سے پہلے ایک نظر میت کو دیکھ لینا چاہتا تھا، وہ جلدی جلدی گھر پہنچا مگر یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ وہ چارپائی جس پر اس کے باپ کی لاش تھی خالی پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
٭٭٭