ڈھیری
منشا یاد
اس کی ڈھیری عام گزرگاہ کے قریب تھی۔ وہ جب بھی دور دراز کا سفر کر کے وہاں پہنچتا کسی نہ کسی کو وہاں موجود پاتا۔کبھی کوئی پہرے دار اور کبھی کوئی عقیدت مند۔
اس نے قید خانے کی صعوبتیں برداشت کرتے اور ہر روز مر مر کر جیتے ہوئے عہد کیا تھا کہ وہ باہر نکلتے ہی اپنی توہین اور ایک ایک اذیت کا بدلہ لے گا۔ اس نے اسے ایک ناکردہ اخلاقی جرم میں پھنسا کر عزت،وقار اور روزگار ہی سے محروم نہیں کر دیا تھا بلکہ اسے رشتے داروں اور بیوی بچوں کی نظروں میں بھی گرا دیا تھا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ زندگی میں ایک بار چاہے وہ اس کی زندگی کا آخری دن ہی کیوں نہ ثابت ہو اس کے منھ پر تھوک کر اپنی نفرت کا اظہار ضرور کرے گا مگر ابھی اس کی سزا کی مدت پوری نہ ہوئی تھی کہ اس کا دشمن ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ پہلے تو اسے خوشی اور اطمینان ہوا کہ ایک ظالم واصلِ جہنم ہوا مگر پھر رہ رہ کر افسوس ہونے لگا کہ اب وہ انتقام کیسے لے گا؟
نفرت کے اظہار اور اس کی بے حرمتی کا طریقہ تو اس نے سوچ رکھا تھا مگر اب اتنے دنوں اور پھیروں کے باوجود اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جب بھی جاتا کسی نہ کسی کو چوکنّا پاتا۔ذہنی اذیتوں،جسمانی سزاؤں اور ناقص خوراک نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ وہ جس بات کا ارادہ کر لیتا جب تک پوری نہ کر لیتا اسے چین آتا نہ ہی نیند۔ رات رات بھر جاگتا اور اگلی پچھلی باتوں کو یاد کر کے غصے اور انتقام کی آگ میں جلتا رہتا۔
وہ درمیانے درجے کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اسے رات کو کئی بار پیشاب کے لیے بھی اٹھنا پڑتا تھا۔ عام طور پر وہ اس کے بعد تھوڑی دیر کو دوبارہ سو جاتا مگر بعض اوقات نیند اچٹ جاتی اور قید و بند کے سارے شب و روز اس کی نگاہوں میں گھومنے لگتے۔ آخری روز وہ منھ اندھیرے اٹھا اور پیشاب کے لیے ٹائیلٹ میں گیا تو معاً اس کی نظر فریشنر کی شیشی پر پڑی جس میں چند قطرے باقی تھے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک انوکھی ترکیب آئی اور اس نے اطمینان کا لمبا سانس لے کر شیشی اٹھا لی۔
٭٭٭